زوال علم کے اسباب اور ان کا سدباب

الحمد لله الذي اكمل لنا الدين واتم به النعمة على العلمين۔
أما بعد!
طلبُ العِلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ
علم خواہ دینی ہو یا دنیاوی انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے جہاں علم نعمت خداوندی ہے وہاں رحمت ربانی بھی ہے،اصل علم تو علم دین ہے یہی علم دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، علم ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہ امیر ہو یا غریب ہو مرد ہو یا عورت ہو یہ انسان کا حق ہے کوئی بھی اسے چھین نہیں سکتا اگر دیکھیں تو انسان اور حیوان میں فرق علم ہی کی بدولت ہے کسی بھی قوم یا معاشرے کے لیے علم ترقی کا ضامن ہے، یہی علم قوموں کی ترقی اور ان کے زوال کی وجہ بنتا ہے اسلام کا پہلا پیغام ہی علم تھا جس کے الفاظ یہ تھے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ*
جامعہ سلفیہ ہرسال آخری کلاس (رابعہ عالی) کیلئے ایک علمی، تاریخی، تحقیقی، سیاسی، معاشی، ادبی مقالاجات تحریر کرواتا ہے ۔ جس سے طلباء کے اندر جہاں یہ مقالے طلباء میں تصنیف وتالیف سے آشنائی مہیا کرتے ہیں وہاں یہ مقالے بہترین علمی سرمایہ بھی جمع کرتے ہیں۔ اور جب سے یہ کام شروع ہواہے
اب تک سینکڑوں عناوین پر مقالاجات لکھے جاچکے ہیں،
زیر نظر مقالہ بھی اسی سعی کی ایک کڑی
ہے۔(جس کا موضوع ہے:زوال علم کے اسباب اور ان کا سدباب)
کامیاب اور مثالی شخصیات بننے کیلئے حصول علم کے آداب اور زوال علم کے اسباب سے متعارف فوائد وثمرات اور اس
کے اغراض و مقاصد سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے جن سے طلبہ نا آشناہیں۔ چنانچہ میں نے ادنی سی کوشش کے
مطابق علم دین کےمتنوع پھولوں کو جمع کیا، انہیں ایک گلدستے کی شکل دی اور
اب گلدستہ “مقالہ”کی صورت میں آپ کی زیر نظر ہے۔رقم الحروف نے اس تحریر میں
3 ابواب اور انکے ساتھ ساتھ کچھ فصلوں کو شامل کیا ہے۔
پہلے باب :میں علم کا لغوی، اصطلاحی، اقسام، فضائل کو ذکر کیا ہے۔
دوسرے باب:”میں علم سے دوری کے اسباب اور ان کا سدباب ”
اور تیسرے باب میں: “آئیں کچھ عزم کریں کے” حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی ہیں۔
میں اللہ رب العزت کی بے حد تعریف و تحمید بیان کرتا ہوں کہ جس نے مجھ ناچیز کو اس عظیم موضوع پر لکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میرا عنوان تو زوال علم کےاسباب اوران کاسدباب) ہے”۔ جس پر کچھ گزارشات ذکر کی ہے جو اہل علم اور
عوام دونوں کے لیے یکساں مفید ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالی ! پھر والدین کا بے حد شکر گزار ہوں جن کی بے انتہا محبت، شفقت اور دعاؤں کی بدولت میں نے یہ مقام حاصل کیا جنہوں نے اس سفر کی مشکلات کو برداشت کرنے میں ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ اور اپنے ان مربعی و مشفق اساتذہ کرام کا کہ جنہوں نے اپنے اس بندہ ناچیز طالب علم کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا سنہری موقعہ فراہم کیا اللہ تعالی ان نیک ہستیوں کا سایہ تا دیر ہمارے سر پر رکھے۔ میں بالخصوص شکر گزار ہوں استاد محترم شیخ الفقہ مولانا ندیم شہباز صاحب حفظہ اللہ (مدرس: جامعہ سلفیہ فیصل آباد)کا جنہوں نے اس مقالہ کی تکمیل میں رہنمائی کی اور مصادر تک رسائی دی جنہوں نے اس سفر میں مجھے رکنے نہیں دیا اور میری ہر مشکل میں میراساتھ دیا۔
پھر میں شکر گزار فضیلة الشیخ خضرحیات صاحب حفظہ اللہ (مدیر:العلماء)اور قاری المقری محمد عمیر صدیقی حفظہ اللہ(مدرس:جامعہ ابن تیمیہ سندر لاہور ) فضیلة الشیخ حافظ عبدالرحمن المعلمي کا جنہوں نے اس مقالہ کےمیدان میں میری مدد کی۔
وما مِن كاتبٍ إلا سيَفْنَى ويُبْقِي الدهرُ ما كَتَبَتْ يَداهُ فلا تَكْتُبْ بِكَفِّكَ غيرَ شيءٍ يَسُرُّكَ في القيامةِ أنْ تَراه
”جو بھی لکھنے والا ہے وہ ایک نہ ایک دن بوسیدہ ہو جائے گا مگر اس کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک لمبے زمانہ تک باقی رہے گا۔
لہذا تم اپنے ہاتھوں سے صرف ایسی چیز ہی تحریر کرو جسے قیامت کے دن دیکھ کر تمہیں خوشی حاصل ہو۔“

●حافظ امجد ربانی
●متعلم:جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:استاذ العلماء حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ