شیخ الحدیث والتفسیر استاذ العلماء حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف

“مارأيت أعلم على وجه الأرض من هذا الشيخ”
▪︎میں نے روئے زمین پر ان سے بڑا عالم نہیں دیکھا▪︎
پیدائش
محمدبن میاں فضل الدین گوندلوی 6 رمضان المبارک 1897ء ضلع گوجرانوالہ کے مشہور قصبہ گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں فضل الدین رحمہ اللہ نے آپ کا نام “اعظم” رکھا تھا اور آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کا نام “محمد” رکھا لیکن آپ والدہ صاحبہ کے تجویز کیے ہوئے نام ہی کے ساتھ معروف ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔
تعلیم وتربیت
پانچ سال کی عمر میں آپ کو حفظ قرآن کے لیے ایک حافظ صاحب کے پاس بٹھا دیا گیا، تھورے ہی عرصے میں حفظ کی صلاحیت خاصی بڑھ گئی، ایک دن والد محترم کہنے لگے کہ ایک ربع پارہ روزانہ یاد کرکے سنایا کرو، ورنہ تمہیں کھانا نہیں ملے گا ، اس دن سے آپ نے روزانہ ربع پارہ یاد کرکے سنانا شروع کردیا۔
حفظ قرآن کا سلسلہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اب آپ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری کا بوجھ آپ کی والدہ ماجدہ کے کندھوں پر آپڑا،چنانچہ دس سال کی عمر میں حفظ قرآن کا کام مکمل ہوا تو والدہ ماجدہ نے مزید تعلیم کے لیے آپ کو جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں (چوک اہل حدیث) شہر گوجرانوالہ میں مولانا علاؤ الدین کے پاس بھیجا، جہاں آپ نے عربی ادب اور صرف ونحو کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں، پھر آپ کو گوندلانوالہ کے ایک نیک سرشت بزرگ عبداللہ ٹھیکیدار کشمیری کی معیت میں مدرسہ تقویۃ الاسلام امرتسر میں داخلے کے لیے بھیج دیا ٹھیکیدار موصوف بہت صالح انسان اورعلمائے غزنویہ کے پرانے عقیدت مند تھے۔ یہ مدرسہ اس وقت حضرت الامام عبد الجبار غزنوی ہی کے زیر نگرانی وسر پرستی چل رہاتھا، یہاں آپ نے چار سال کی قلیل مدت میں حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم وفنون کی تمام کتب سے فراغت حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام
(1) فضیلة الشيخ مولانا علاوالدین رحمہ اللہ(گوجرانوالہ )
(2)حضرت الامام سید عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ
(3)فضیلة الشيخ مولانا سید عبدالاول غزنوی رحمہ اللہ
(4)فضیلة الشیخ مولانا سید عبد الغفور غزنوی رحمہ اللہ
(5)جامع المعقول والمنقول مولانا محمد حسین ہزاروی رحمہ اللہ
(6) فضیلتہ الشیخ مولانا عبد الرزاق رحمہ اللہ
(7)شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی رحمہ اللہ
علوم طبیہ کی تحصیل
آپ کا شروع سے ہی خیال تھا کہ علوم دینیہ کو ذریعہ معاش نہ بنایا جائے، چنانچہ درس نظامی کی تحصیل کے بعد آپ نے اسی نیت سے طبیہ کالج دہلی میں داخلہ لے لیا، یہاں طب کا چار سالہ کورس مکمل کرکے آپ نے فاضل الطب والجراحت درجہ اول کی سند اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ طبیہ کالج کے اساتذہ میں سب سے زیادہ قابل مشہور بلکہ بین الاقوامی شخصیت حکیم اجمل خان مرحوم تھے۔ وہ حضرت گوندلوی مرحوم کی ذہانت و فطانت اور قابلیت سے اتنے متاثر تھے کہ فرمایا کرتے:
جب مجھے اس شخص حضرت گوندلوی) کے سامنے لیکچر دینا ہوتا ہے تو مجھے بہت تیاری کرنی پڑتی ہے۔ حضرت حافظ صاحب نے طب کی تعلیم محض اس غرض سے حاصل کی کہ علوم دینیہ کی بجائے
طب کوذریعہ معاش بنائیں گے اور کچھ عرصے تک آپ نے اس کا تجربہ بھی کیا، چنانچہ 1948ء میں جب مولانا ابو البرکات احمد مدراسی مرحوم آپ سے صحیح بخاری وغیرہ پڑھنے کے لیے گوجرانوالہ آئے تو اس وقت آپ جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں کے سامنے مطب کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے قبرستان روڈ پر واقع ٹاہلی والی مسجد میں ”درس اعظم کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کررکھا تھا ، جس میں دوسرے مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ صحیح بخاری اور دیگر علوم کی اعلیٰ درجے کی کتابیں پڑھنے کے لیے آیاکرتے تھے۔
کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا، لیکن جلد ہی آپ کو احساس ہوگیا کہ یہ دونوں کام خاصا وقت مانگتے ہیں اور بیک وقت احسن طریق سے نہیں چل سکتے ، چنانچہ طب یونانی کا کاروبار آپ نے یکسر موقوف کردیا اور حکمت ایمانی (علوم دینیہ) کی خدمت کے لیے کلیۃ وقف ہوگئے۔
تدریسی خدمات
حصول تعلیم کے دوران ہی آپ کی ذہانت و قابلیت اور علوم وفنون کی صلاحیت کی بہت شہرت ہوگئی تھی ، اس لیے تکمیل وفراغت کے بعد گھر آتے ہی مختلف درس گاہوں کی طرف سے آپ کو تدریس کے لیے دعوت نامے آنے لگ گئے۔ کچھ عرصہ تو آپ نے اپنے گاؤں گوندلانوالہ میں قیام فرمایا اور پڑھتے پڑھاتے
رہے، اس دوران1924ء میں آپ کو ادائیگی حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
مدرسہ رحمانیہ، دہلی
1927ء میں مدرسہ رحمانیہ دہلی کے مہتمم شیخ عطاء الرحمن کے پرزور اصرار پر ان کے ہاں تشریف لے گئے، کچھ عرصہ تک وہیں تدریسی خدمات سرانجام دیں، یہاں سے فارغ ہوکر آپ پھر واپس گوند لانوالہ آگئے۔
گوندلانوالہ میں تدریس
گوندلانوالہ واپس آکر آپ نے پھر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا، بہت سے
طلبہ نے آپ سے کسب فیض حاصل کیا، غالباً(1930ء کے لگ بھگ)کی بات ہے۔
جامعہ عربیہ دار السلام ، عمر آباد
1933ء میں اہل مدراس کی دعوت پر جامعہ عربیہ دار السلام عمر آباد تشریف لے
گئے، آپ کے وہاں تشریف لے جانے سے اس درس گاہ کی خوب شہرت اور ترقی ہوئی،
یہاں چند سال تدریس کرنےکے بعد پھر گوند لانوالہ واپس آگئے ۔
جامع مسجد اہل حدیث، گوجرانوالہ
ان دنوں جامع مسجد اہل حدیث ، چوک اہل حدیث (چوک نیائیں) میں ایک دینی درس گاہ قائم تھی، جس کی انتظامیہ نے آپ کو تدریس کی دعوت دی، جو آپ نے قبول کرلی، چنانچہ ان کی طرف سے آپ کو ایک بائیسیکل مہیا کی گئی، جس پر آپ روزانہ گوندلانوالہ سے آتے اور پڑھا کر واپس چلے جاتے تھے۔ ان دنوں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ یہ وہاں خطیب تھے، انہوں نے بھی
حضرت گوندلوی سےبعض کتب پڑھیں۔
مدرسہ تعلیم الاسلام، اوڈانوالہ
1944ء کے لگ بھنگ کا عرصہ آپ نے مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ میں گزارا۔ مدرسہ ہذا بانی امیر المجاہدین صوفی محمد عبد اللہ کی پر خلوص دعوت پر آپ وہاں تشریف لے گئے ۔
صوفی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت گوندلوی کی وجہ سے ہمارا مدرسہ بھی جامعہ بن گیا تھا اور طلبہ کی کثرت کی وجہ سے بڑی رونق ہوگئی تھی ، یہاں آپ نے دو سال تک شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیے۔
درس اعظم، ٹاہلی والی مسجد، گوجرانوالہ
1944ء کے لگ بھگ آپ نے” ٹاہلی والی مسجد قبرستان روڈ گوجرانوالہ میں ”درس اعظم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا، جس میں فارغ التحصیل طلبہ کو آپ
صحیح بخاری، موطاامام مالک، الاتقان للسیوطی، حجۃ اللہ البالغہ اور مسلم الثبوت وغیرہ پڑھاتے تھے۔ ان دنوں طب کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا ہواتھا، جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں کے سامنے مطب کرتے تھے، مولانا ابوالبرکات اور دیگر کئی علماء اسی دور میں آپ سے دینی
علوم کے ساتھ ساتھ طبی علوم بھی پڑھا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ مل کر دو اسازی کا کام بھی کیا کرتے تھے۔
یہ درس اعظم 1949ء تک بخیر و خوبی چلتا رہا۔ حضرت گوندلوی خود ہی اس کے بانی اور اکیلے ہی اس کے مدرس تھے اور بلا تنخواہ و معاوضہ پڑھاتے تھے۔
جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ
1950ء میں حاجی محمد ابراہیم انصاری مرحوم اور ان کے رفقاء نے آبادی حاکم رائے (گلشن آباد) گوجرانوالہ میں جامعہ اسلامیہ کے قیام کا پروگرام بنایا تو حضرت گوندلوی سے اس کی علمی سر پرستی کی درخواست کی ، آپ نے قبول فرمالی اور یوں درس اعظم کا گویا جامعہ اسلامیہ میں ادغام خوش انجام ہوگیا۔
اب جامعہ اسلامیہ میں دیگر مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو حضرت حافظ صاحب وہی ” درس اعظم والا نصاب پڑھاتے تھے اور مولانا ابو البرکات احمد ان کو فاضل عربی کی تیاری کراتے تھے، تقریباً پانچ سال تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ پھر جامعہ اسلامیہ میں آٹھ سال کا مکمل نصاب درس نظامی جاری کر دیا گیا
جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
1956ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا قیام عمل میں آیا تو اس کی مسند
شیخ الحدیث کے لیے حضرت حافظ صاحب ہی کو سب سے زیادہ موزوں سمجھا گیا، چنانچہ مرکزی
جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا محمد عطاء اللہ حنیف
حاجی محمد ابراہیم انصاری مرحوم سےحضرت حافظ صاحب کو با قاعدہ مانگ کر لے گئے۔ 1963ء تک آپ جامعہ سلفیہ میں شیخ الحدیث کے طور پر کام کرتے رہے، پھر جامعہ کی انتظامیہ میں کچھ نا خوشگوار تبدیلی کی وجہ سے آپ
واپس گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔
گوجرانوالہ واپس آتے ہی جامعہ اسلامیہ کی انتظامیہ نے آپ سے پھر جامعہ کی
علمی سر پرستی کی درخواست کی، جسے آپ نے صرف اسباق پڑھانے کی حد تک
قبول کر لیا۔چنانچہ آپ صحیح بخاری اورخلاصة التفاسیر پڑھانے لگے، یعنی مختلف کتب تفسیر کا مطالعہ کرنے
کے بعد ان کا خلاصہ طلبہ کے سامنےپیش کر دیتے تھے۔ یہ سبق انتہائی معلوماتی اور تحقیقی ہوتا تھا۔
جامعہ اسلامیہ، مدینه منوره
1964ء کے لگ بھگ آپ کو مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے تدریس کے لیے مدعو کیا گیا تو آپ وہاں تشریف لے گئے،
ایک سال تک آپ نے وہاں پڑھایا، یونیورسٹی کےطلبہ کی نسبت آپ سےوہاں کے اساتذہ و شیوخ زیادہ متاثر اور مستفید ہوئے۔
جامعہ محمدیہ،گوجرانوالہ
مدینہ یو نیورسٹی سے واپس آکر پھر جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے وابستہ ہوگئے۔کچھ عرصہ بعد شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ کی درخواست پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر تا دم واپسی اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔
قوت حفظ اور وسعت علم
ممدوح قوت حفظ اور وسعت علم میں اپنی نظیر آپ تھے، مطالعہ کتب کے بہت شائق تھے، جو کچھ پڑ ھتے تھے، ہمیشہ کے لیے ازبر ہو جاتا تھا۔
آپ کی تصنیف “إثبات التوحيد بإبطال التثلیث کا مسودہ گم ہوگیا تو آپ نے محض حافظے کی مدد سے اسے پھر لکھ دیا، چند دنوں کے بعد گم شدہ مسودہ بھی مل گیا، ان کا آپس میں مقابلہ کیا گیا تو دونوں میں کوئی فرق نہ نکلا۔
□مدینہ یونیورسٹی □
مدینہ یونیورسٹی کی تدریس کے زمانہ میں شیخ محمد امین شنقیطی صاحب “أضواء البیان” نے کسی مجلس میں آپ سے چند روایات دریافت کیں تو آپ نے فرمایا: جامع ترمذی میں یہ سب روایات موجود ہیں، سب اہل مجلس کا خیال تھا کہ وہ اس میں نہیں ہیں، آپ نے سب روایات ایک
کرکے ترمذی شریف میں دکھا دیں، شیخ شنقیطی فرمانے لگے:
▪︎ما رأيت أعلم على وجه الأرض من هذا الشيخ▪︎میں نے روئے زمین پر ان سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔
تصانيف
تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف کا کام بھی کیا، چنانچہ درج ذیل کتب آپ کی یادگار ہیں:
(1)زبدة البيان في تنقيح حقيقة الإيمان وتحقيق زيادته والنقصان۔
(2)التحقيق الراسخ في أن أحاديث رفع اليدين ليس لها ناسخ
(3)سنت خیرالانامﷺ درسه وتربه یک سلام
(4)خير الكلام في وجوب الفاتحة خلف الإمام
حدیث کی دینی حجیت (الاعتصام میں شائع شدہ مقالہ)
(4)ارشاد القاري إلى نقد فيض الباري
(5)دوام حدیث بجواب مقام حدیث
(6)إثبات التوحيد بإبطال التثليث
(7)شرح مشکوة (کتاب العلم تک)
(8)ایک اسلام بجواب دواسلام
(9)البدور البازغة (ترجمہ)
(10) اسلام کی پہلی کتاب
(11)اسلام کی دوسری کتاب
(12)الإصلاح (۳ حصے)
(13) بغية الفحول
(14) كتاب الإيمان
(15)صلوة مسنونه
(16) اهداء ثواب
(17)تنقید المسائل
(18)ختم نبوت
(19)معیار نبوت
(20)ردمودودی
تلامذہ
عرصہ دراز تک تدریس کی وجہ سے آپ کے تلاندہ و مستفیدین کی تعداد کہاں تک پہنچ گئی ہوگی۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور عرب ممالک وغیرہ کے
ہزاروں طلبہ نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا،
مستفیدین کے اسماء درج ذیل ہیں:
(1)شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد رحمہ اللہ، (شیخ الحدیث: جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ)
(2)مولانا حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی
(3)مولانا محمد عبد اللہ ، سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان
(4)شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث: جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
(5)مولانا حافظ محمد الحق حسین خانوالہ صاحب
(6)شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ خان عفیف رحمہ اللہ
(7)مولانا حافظ فتح محمد فتحی صاحب، مکہ معظمہ
(8)فضیلة الشيخ مولانا محمد صادق رحمہ اللہ(خلیل، فیصل آباد)
(9) مولانا عبید اللہ رحمانی ( صاحب المرعاة )
(10)فضیلة الشيخ مولانا حافظ عبد الغفار حسن صاحب
(11) فضیلة الشیخ مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ،(امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان)
(12)شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
(13) شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ(مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)
(14) شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ
(15)محقق العصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ( مدیر: علوم اثریہ فیصل آباد)
( 16)فضیلة الشيخ محمد علی جانباز اللہ، (سیالکوٹ)
(17)فضیلة الشيخ مولانا حافظ سیف الرحمن الفلاح رحمہ اللہ
(18)فضیلة الشيخ مولانا پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ
( 19)فضیلة الشيخ مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ، (فیصل آباد)
(20)شیخ محمد ابراهيم شقره الأردني، (مدینہ یونیورسٹی )
(21) شیخ الحدیث محمد امین محمدی صاحب (جامعہ نصرالعلوم گوجرانوالہ عالم چوک)
وفات
1975ء کو تقریباً پون صدی تک منبرو محراب اور مساجد و مدارس کو رونق بخشنے والا علوم و فنون علم و عمل اور ایمان و یقین کا یہ مہر درخشاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ بے شمار علماء و طلباء کو سوگوار چھوڑ گیا۔
إنا لله وإنا اليه راجعون ،
اللهم اغفر له وارفع درجته في المهديين۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:مولانا عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ