علماکی خدمت، اور عزت وتکریم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ان کے تذکرہ خیر کو عام کیا جائے، اس لیے ہم نے ’تعارفِ علما‘ کا سلسلہ شروع کیا، اور اس میں  ابتدا ان معزز علمائے کرام سے کی ہے، جو ہماری سرپرستی فرما رہے ہیں، یا کسی صورت میں ہمارےساتھ منسلک ہیں، اسی  مبارک سلسلے کی ایک  اہم کڑی  شیخِ محترم کا یہ

دلچسپ انٹرویو ہے۔آپ  ’العلماء‘ کے بنیادی رکن، اور لجنة العلماء للإفتاء کے مفتیانِ کرام میں شامل ہیں۔ (ادارہ)

سوال:شیخ ِمحترم آپ اپنے نام کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟اور آپ  کی ولادت کب اور کہاں ہوئی؟

جواب:میرا مکمل نام سعید مجتبیٰ سعیدی ہے،سعیدی کی نسبت والد صاحب کی طرف سے آئی ہے،ہمارے والد محترم مولانا ابو سعید عبدالعزیز السعیدی نے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل بیہقی زماں حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے مدرسہ عربیہ سعیدیہ  (دہلی)سے کی تھی، اس مدرسہ کی نسبت سے ہمارے والد محترم ’سعیدی‘ لکھتے اور کہلاتے تھے۔ہم سب  بھائی بھی اپنے ناموں کے  ساتھ’سعیدی‘  لکھتے ہیں، بلکہ اب یہ نسبت ہماری اولادوں کی طرف بھی منتقل ہوگئی ہے۔

جن دنوں میری ولادت ہوئی، والد ِمحترم اگرچہ رحیم یار خان سے نقل مکانی کرکے منکیرہ ،ضلع بھکر میں رہائش پذیر ہوچکے تھے، جبکہ میرے ننھیال صادق آباد ضلع رحیم یار خان کے نواح میں ایک گاؤں چک نمبر 157 P میں رہتے تھے،وہیں میری ولادت ہوئی۔ تاریخِ ولادت ٧ ستمبر ١٩٥٧ ہے۔

سوال:تعلیمی مراحل کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمائیں؟

جواب:میری عصری تعلیم منکیرہ ضلع بھکر میں ہوئی،آٹھویں کلاس تک میں گورنمنٹ مڈل سکول منکیرہ میں زیرِ تعلیم رہا،مجھے شروع سے ہی والد ِمحترم کی تربیت کے نتیجے میں دینی تعلیم کا شغف رہا ،میں نے والدِ محترم سے اظہار کیا، اور ان کی بھی شدید خواہش تھی کہ میں اب دینی تعلیم حاصل کروں،چنانچہ ١٣ اپریل١٩٧١ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جلال پور کا رخ کیا ،جہاں محدثِ زماں استاذ العلماء شیخ الحدیث والقرآن حضرت مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ نے بساطِ علم بچھائی ہوئی تھی،اس ادارے کا نام ”جامعہ دارالحدیث المحمدیہ“ ہے۔میری دینی تعلیم کا آغاز اسی ادارے سے ہوا اور یہیں  تکمیل ہوئی ۔

اس ادارے کی سب سے اہم خصوصیت شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ کا وجودِ مسعود تھا، نائب شیخ الحدیث ان  کے شاگردِ رشید حضرت مولانا رفیق الاثری رحمہ اللہ تھے، یہاں تیسرے استاذ مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ تھے،جو ان دونوں بزرگوں کے شاگرد تھے۔ آہ ! اب میرے یہ تینوں اساتذہ کرام اللہ تعالی کے مہمان بن چکے ہیں۔ رحمهم الله جميعا.

جامعہ دارالحدیث محمدیہ جلال پور پیروالا سے  تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا رخ کیا، وہاں کے عالی قدر مشايخ سے استفادے کا موقعہ ملا،اس کے بعد میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوگیا، وہاں کلیہ حدیث شریف میں مسلسل چار سال زیرِ تعلیم رہ کر حدیث ، علومِ حدیث اور عربی لغت میں مزید مہارت حاصل کی،١٩٨٣ میں وہاں سے بی اے کا امتحان پاس کرکے وطن واپس لوٹ آیا۔

سوال:آپ کے اساتذہ اور شاگردوں میں کون کون سے نام آتے ہیں؟

جواب: اساتذہ کرام میں سے تین  حضرات کا  اوپر ذکرہوچکا، بقیہ معروف  اساتذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:

حافظ ثناء اللہ خان مدنی رحمہ اللہ،حضرت مولانا محمد صدیق فیصل آبادی رحمہ اللہ،حضرت مولانا حافظ احمد اللہ چھتوی رحمہ اللہ،حضرت مولانا قدرت اللہ فوق رحمہ اللہ ، فضیلة الشیخ عمر فلاتہ رحمہ اللہ، فضیلة الشیخ عبدالقادر حبیب اللہ السندی رحمہ اللہ،فضيلة الشيخ  ربیع بن ہادی  حفظه الله،فضیلة الشیخ عطیہ سالم مالكی  رحمہ اللہ ، فضیلة الشیخ الدکتور ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ ۔اللہ سبحانہ و تعالی میرے تمام اساتذہ کرام کو اپنی رحمتوں سے نوازے،یہ سب (سوائے ایک کے) اللہ سبحانہ وتعالی کے مہمان بن چکے ہیں ،اللہ تبارک و تعالی ان کے درجات بلند فرمائے ۔

جہاں تک بات ہے میرے شاگردوں کی، تو مجھ سے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا ہے ، بعض تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، کئی ایک کے پاس رسائل وجرائد کی ادارت وایڈیٹنگ بھی ہے، اور بعض شاگرد تو الحمدللہ مدارس میں ’شیخ الحدیث‘ کے منصب پر فائز ہیں، لیکن میں ان میں سے کسی کا بھی نام  ذکر کرکے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش نہیں کروں گا،اللہ تبارک وتعالی سب کو مزید دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور میرے لیے، اور میرے اساتذہ کے لیے  صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین۔

سوال: شیخِ محترم آپ نے کہاں کہاں تدریس كى؟ اور  کل دورانیہ تقریباً کتنا بنتا ہے؟

باقاعدہ طور پر میری تدریس١٩٨٣ء سے شروع ہوتی ہے،ویسے میں جہاں بھی پڑھتا رہا وہاں اپنے معاصر دوستوں یا اپنے سے جونیئر طلبہ کو پڑھاتا رہا،یہ سلسلہ جلال پور پیروالہ ، جامعہ سلفیہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جاری رہا۔

١٩٨٣ سے لیکر ١٩٩٠ تک جامعہ رحمانیہ میں پڑھاتا رہا،اس کے بعد ١٩٩٠ میں میری گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ لیہ میں بطور لیکچرار تعیناتی ہوئى۔

جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعدجب ہمارے کاغذات مدینہ یونيورسٹی بھیجے گئے تو اس وقت رابطوں کا سلسلہ بہت مشکل اور محدود تھا ،مجھے  شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم گھر بیٹھے اپنا وقت ضائع کرو گے کیونکہ مدینہ یونيورسٹی سے داخلہ کنفرم ہونے کی اطلاع وصول ہونے میں پانچ چھے ماہ لگ جاتے ہیں، اس دوران آپ جامعہ سلفیہ آجائیں، اور پڑھائیں۔ تدریس کے ساتھ ساتھ داخلہ سے متعلق تازہ اطلاعات بھی ملتی رہیں گی،یوں جامعہ سلفیہ  (فيصل آباد) میں بھی پانچ چھے ماہ پڑھانے کا موقع ملا   ۔الحمدللہ۔

سوال: دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات کے حوالے سے کچھ فرمائیں؟

جواب:درس وتدریس کے دور سے لیکر اب تک دعوت وتبليغ میں مصروف ہوں، اور خطبہ جمعہ  دے رہا ہوں، بعض اوقات از راهِ تفنن میں کہہ دیتا ہوں کہ “میں نے کبھی جمعہ نہیں پڑھا” تو بعض دوست احباب حیران ہوتے ہیں، پھر میں وضاحت کرتا ہوں کہ مجھے جمعہ پڑھنے کا موقعہ کم ہی ملتا ہے، اکثر اوقات جمعہ پڑھاتا ہی ہوں، کہیں اچانک بھی جانا ہو تو وہاں کے خطیب صاحب معلوم ہوتے ہی منبر چھوڑ کر نیچے تشریف لے آتے ہیں اور مجھے خطبہ  کی دعوت دیتے ہیں۔  میں چونکہ عوامی خطیب  نہیں ہوں اس لیے  عموما جلسے جلوس میں شرکت نہیں کرتا،  البتہ خطباتِ جمعہ کے سلسلہ میں ضلع لیہ ، ضلع بھکر ،ضلع خانیوال اور  دیگر علاقوں میں  دوست احباب ياد کرتے ہیں، تو جانے کا موقعہ ملتا رہتا ہے۔

سوال:شادی کب کی اور اور اولاد کتنی ہے؟

جواب:شادی کی نہیں ، بس یوں سمجھ لیں شادی ہوگئی،جب مدینہ یونيورسٹی گئے، تو داخلے کے حوالے سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے، دس پندرہ دن لگ جاتےتھے،ان دنوں وہاں  ایک صاحب تھے قاری حبیب الرحمن جو کہ منڈی عبدالحکیم کے تھے، وہ مجھے اپنے ساتھ  لے گئے، اور میرے داخلے کے سارے مراحل میں انہوں نے میرے ساتھ تعاون کیا،دس پندرہ دن ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ،اس دوران انہوں نے میرے اخلاق ، عادات اور میرے معمولات دیکھے ،اس کے بعد بھی ان کا میرے ساتھ رابطہ رہا،کبھی میں ان کے کمرے میں چلا جاتا، کبھی وہ میرے کمرے میں تشریف لے آتے،اس طرح ہمارا تعلق بڑھتا رہا،آخرکار ایک موقعہ پر انہوں نے اظہار فرمایا کہ ہماری ایک ہمشیرہ ہے میں چاہتا ہوں کہ  ہم بھائی بھائی بن جائیں،والدین کے ذریعے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، اوراللہ تبارک و تعالی نے اس کام کی تکمیل فرمائی،یہ  رشتہ خالص دینی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے مجھے 5 بیٹیوں اور ایک بیٹےسے نوازا ہے۔تمام بیٹیاں تعلیم یافتہ  اور شادی شدہ ہیں ، اوراپنے اپنے گھروں میں آباد و شاداب ہیں الحمدللہ۔ بیٹے کا نام حمزہ حسین سعیدی ہے،اسے دینی اور دنیاوی تعلیم دلانے کی پوری کوشش کی ہے،بی اے تک عصری تعلیم مکمل کرچکا ہے ،اور اب ایم اے کی تیاری کررہا ہے،اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا کورس بھی مکمل کرچکا ہے۔دینی تعلیم کے سلسلے میں ابتدائی طور پر مرکز الدعوۃ السلفیہ، ستیانہ بنگلہ میں داخل کروایا، وہاں تین سال زیر ِتعلیم رہا، پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد بھیج دیا، جہاں سے دو سال تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد اس نے جامعہ امام بخاری سرگودھا  سے سندِ فراغت حاصل کی۔

ادارے تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مختلف اداروں کا نظام، وہاں کی تربیت کا انداز، مختلف اساتذہ سے پڑھ کر ان کی عادات و اوصاف کو اپنائے،کیونکہ ہر استاد کے پڑھانے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔الحمدللہ اس وقت وہ عالم دین ہے،جب کبھی میں نہیں ہوتا تو میری نیابت میں جمعہ بھی پڑھاتا ہے،میں خواہش رکھتا ہوں کہ وہ میری موجودگی میں بھی جمعہ پڑھائے، لیکن ابھی تک وہ جھجک محسوس کرتا ہے۔

سوال: شیخ محترم اپنی تصنیفات وتالیفات سے آگاہ فرمائیں!

جواب:بچپن میں  جب میں رسائل وجرائد اور اخبارات کا مطالعہ کرتا، تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ میں بھی بڑا ہو کر  علم حاصل کرکے، اسی طرح مضامین لکھا کروں گا، پھر جلالپورہ پیر والہ میں تعلیم کے دوران استادِ محترم مولانا رفیق اثری رحمہ اللہ  سے بھی سیکھنے کا موقعہ ملا، وہ تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے  تھے،  کتابوں کی پروف ریڈنگ کے سلسلے میں، وہ مجھے بُلا لیا کرتے تھے، جہاں سے  مزید شوق پیدا ہوا، اور میں نے لکھنے کی طرف توجہ کی، اور اللہ کی توفیق سے قلم چل پڑا۔ اب تک میری الحمدللہ  دو درجن سے زائد کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔  جن کے نام کچھ اس طرح ہیں:

1۔آداب حج

2 ۔آداب عمرہ

3۔آداب دعا(ترجمہ)

4۔کتاب التوحید (ترجمہ )

5 ۔غایۃ المرید  شرح کتاب  التوحید

6۔اربعین نووی (ترجمہ)

7۔شرح اربعین نووی

8۔اسلام کے احکام و آداب

9۔اپریل فول کی تاریخی و شرعی حیثیت (ترجمہ)

10۔بدکاروں کی زندگی کا عبرتناک انجام (ترجمہ)

11۔سونا چاندی کے زیورات کیسے خریدیں ؟(ترجمہ)

12۔موت کے وقت (ترجمہ)

13۔منکرینِ حدیث کے شبہات اور ان کا رد

14۔حیض،نفاس اور استحاضہ کے بارے میں خواتین سے متعلقہ مخصوص احکام و مسائل (ترجمہ)

15۔ سنن ابن ماجہ (ترجمہ)

16۔الاکمال فی اسماءالرجال

17۔تذکرہ شہدائے بدر واحد

18۔مقامات ِختم نبوت

19۔مقالاتِ سیرت

20 ۔ الفتح الربانی ترتیب مسندامام احمد شیبانی (اردو ترجمہ )

21۔مقدس رسول کے مقدس غزوات

22۔تفسیر  سورۃالفاتحہ

23۔تفسیر سورۃ الحجرات

24۔سید ِکائنات کی جنگی مہمات

25۔منتخب سیرۃ المصطفیٰ

26۔مختلف عناوین سے دس پمفلٹ

27۔ آدابِ دین ودنیا

28۔ تفسیر سورۃ الجمعہ

اس کے علاوہ کئی ایک ترجمہ کردہ کتب    منتظرِ طباعت ہیں، جیسا کہ

29۔اللؤلؤ والمرجان فیما اتفق عليه الشیخان

30۔تدریب الراوي للسيوطي

31۔صحيفة همام بن منبه (ترجمہ و شرح )

32۔کتاب الزهد للامام ابن المبارك

33۔کتاب الزهد للإمام هناد بن السري

34۔رحمۃ للعالمین از سعید بن علی بن وہف القحطانی (اردو ترجمہ)

35۔ مسند علي بن الجعد (اردو ترجمہ)

اس کے علاوہ بہت سارے جماعتی رسائل و جرائد میں  میرے مضامین شائع ہوئے ہیں، مثلا: ہفت روزہ اہل حدیث، الاعتصام، الاسلام، الیوم، ماہنامہ محدث لاہور، البلاغ، ام الہدی، صحیفہ اہل حدیث، کراچی، نوائے وقت، روزنامہ پاکستان، تفہیم الاسلام، نداء الاحسان وغیرہ۔

سوال: آپ کے حالاتِ زندگی  کہیں  لکھے ہوئے موجود ہیں؟

جواب:  میری بعض کتابوں کے آخر میں   میرا تعارف مطبوع ہے، اسی طرح مولانا  محمد اسحاق بھٹی مرحوم  نے ’برصغیر میں اہل ِحدیث خدام ِقرآن‘، اور’ دبستانِ حدیث‘ میں تفصیل سے میرا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ ’تحصیل منکیرہ کا ادبی منظر نامہ‘ ایک کتاب ہے، جس میں میرا مفصل تذکرہ موجود ہے۔

سوال:کیا آپ سوشل میڈیا فیس بک، ٹویٹر وغیرہ استعمال کرتے ہیں؟      

جواب: میں کچھ اس انداز سے مصروف رہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے لیے میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا، اور نہ ہی مجھے ان چیزوں کا شوق ہے، لہذافیس بک اور ٹویٹر وغیرہ سے فی الحال میں بالکل نابلد ہوں۔ صرف واٹس اپ استعمال کرتا ہوں ۔

سوال:طلبہ اور نوجوان علماکو عصر حاضر کے تناظر میں کیا نصیحت فرمائیں گے؟

جواب: نوجوان طلبہ کے لیے میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی طالب علمی کی زندگی میں اپنی تمام تر توجہ حصول ِعلم کی طرف رکھیں، علم میں پختگی اور رسوخ پیدا کریں،اساتذہ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں،اور جو مسائل پڑھیں ان پر ابھی سے عمل کی عادت بنالیں،آج جو عادت بن جاے گی ان شاء اللہ وہ زندگی کا حصہ بن جاے گی۔

بعض طلبہ طالب علمی کے دور میں ہی شہرت حاصل کرنے کے لیے جلسوں اور تقریروں کا ذہن بنا لیتے ہیں،

پھر وہ لچھے دار تقریریں یاد کرتے ہیں، اس طرح وہ شاید شہرت تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن علمی لحاظ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہذا طالب علمی کے دور میں  اپنی مکمل توجہ علم کی طرف رکھنی چاہیے، کتابیں حل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے،ہم تو اسی چیز کو اصل علم سمجھتے ہیں۔

نوجوان علما کے لیے میری نصیحت ہے کہ وہ لوگوں کے لیے نمونہ بنیں۔جس طرح ایک رسول اپنی امت کے لیے نمونہ ہوتا ہے، اسی طرح علمائے کرام اپنے ماحول کے لیے اسوہ اور نمونہ ہوتے ہیں۔عملی لحاظ سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، خلوت و جلوت پاکیزہ اور نمایاں ہونی چاہیے، لین دین کے معاملات میں  سب لوگوں کے ساتھ اپنا حساب صاف رکھیں۔

بہت بار دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر علمائے کرام، حافظ و قاری ننگے سر رہتے ہیں،یہ بھی کوئی اچھی عادت نہیں ہے ،اُنہیں بہترین اور عمدہ حالت میں وقت گزارنا چاہیے، تاکہ وہ لوگوں کے لیے نمونہ بنیں۔ ہم نے تو طالب علمی کے دور سے لیکر اب تک کبھی بھی ننگے سر رہنے کو پسند نہیں کیا، بلکہ کالج کے ماحول میں جہاں عام طور پر لوگ ننگے سر رہتے ہیں،میری پوری زندگی گواہ ہے کہ میں کالج میں  بھی کبھی ننگے سر نہیں گیا۔ وللہ الحمد۔

غرضیکہ طلبہ اور نوجوان علمائے کرام عملی لحاظ سے اپنے آپ کو نمونہ بنائيں، علم میں پختگی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اللہ سبحانہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

سوال:شیخ محترم آپ اپنے ہر پیغام کے شروع میں ’بسم اللہ‘ لکھتے ہیں، اس کا پس منظر کیا ہے؟

جواب: بس یہ میرا ایک معمول ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ ان مقدس کلمات کو خواہ  مختصر ہی استعمال کیا جاے، لیکن لوگوں کے لیے نمونہ بننا چاہیے،تو میں جب بھی کوئی میسيج لکھتا ہوں، اس کے شروع میں  “بسم اللہ” کا بالخصوص اہتمام کرتا ہوں،شاید ہی کوئی پیغام ایسا ہو جس کے شروع میں، میں” بسم اللہ” نہ لکھ سکا ہوں،ہمیشہ اس کا اہتمام کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔  ان شاء اللہ۔میری تمنا اور خواہش ہے کہ یہ چیز لوگوں کے لیے بھی نمونہ بن جائے،اور باقی لوگ بھی اس طریقے کو اپنالیں۔

سوال:شیخ محترم عصر حاضر میں تصویر کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا آپ کے کوئی ویڈیو بیانات، خطابات یا تقاریر ہیں؟

جواب:جہاں تک تصویر کا مسئلہ ہے ،یہ بڑا سنگین معاملہ ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،واضح احادیث ہیں،کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویریں بنانے اور بنوانے والے پر لعنت کی ہے، بلکہ بعض روایات میں آتا  ہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں کتا اور تصویر ہو، وہاں پر رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ [بخاری:5949]

اس لیے نہ میں تصویر کو پسند کرتا ہوں، اور نہ کسی کو اس کی اجازت  دیتا ہوں۔ماضی قریب تک ہمارے علمائے کرام تصویر سے شدید نفرت کرتے تھے اور گریز کیا کرتے تھے۔حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ ایک مشہور شخصیت تھی،آپ جب بھی کسی علاقے میں خطبہ جمعہ یا تقریر کے لیے جاتےتو لوگ ان کی تصویر بنانے کی کوشش کرتے تو وہ سختی سے روک دیا کرتے تھےاور فرماتے :’’کیمرے والے اپنے کیمرے بند کر دیں،  ورنہ ان کے کیمرے توڑ دیے جائیں گے‘‘۔ اس کے علاوہ بھی اکثر علمائے کرام تصویر سے شدید نفرت کرتے چلے آئے ہیں،ہم بھی چونکہ سلفی ہیں ہمیں بھی ابھی تک جدید دور کی یہ چیز متاثر نہیں کرسکی،البتہ جو لوگ شہرت پسند ہیں، یا میڈیا میں وہ اپنے آپ کو نمایاں رکھنا چاہتے ہیں، یا جو سیاسی لوگ ہیں، تصویر ان حضرات کی مجبوری ہے۔

مجھے تو پیغام ٹی وی پر بھی بارہا بلایا گیا، ليكن میں نے  صرف 5 یا 6 پروگرام ریکارڈ کروائے، جو کہ بعد میں نشر بھی ہوئے،لیکن تصویر کی وجہ سے میں نے معذرت کرلی،اور  عرض کیا کہ آئنده میں ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کروانا چاہتا، اگر آپ صرف آواز ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوتا رہوں گا،  لیکن انتظامیہ نے کہا کہ TV میں تصویر کے بغیر تو پیغام کا تصور ہی  نہیں کیا جاسکتا،تو میں نے اس موقعہ پر عرض کیا:

“مجھے ایسی تبلیغ کی قطعا ضرورت نہیں ہے، جس میں میری تصویر  آئے”۔

بہرکیف میں نے خود کبھی اپنے بیانات کوویڈیو ریکارڈ نہیں کروایا،اور نہ ہی میرے علم کے مطابق میری کوئی تقریر ویڈیو ریکارڈ میں موجود ہے،البتہ جن دنوں میں جامعہ امام بخاری ،سرگودھا میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہا تھا، تو مولانا سید سبطین شاہ صاحب نقوی کی خواہش تھی، کہ میں عصر کی نماز کے بعد درس دیا کروں تو وہاں دروس کا سلسلہ شروع ہوا ۔جامعہ کی طرف سے امام بخاری میڈیا سنٹر قائم ہے،  وہ میرے دروس کی ویڈیو بنانے لگے، میں نے اظہار کیا کہ میرے دروس  کو ریکارڈ نہ کیا جاے لیکن انہوں نے کہا یہ ہماری ضرورت ہے،تب میں ادباً خاموش رہا، ورنہ میں تصویر کو بہرحال پسند نہیں کرتا، اور نہ ہی اس کی اجازت دیتا ہوں۔

یہ درست ہے کہ آج کے اس دور اور ماحول میں تصویر سے مکمل طور پر اجتناب ناممکن ہوگیا ہے،لوگ پتہ بھی نہیں چلنے دیتے اور تصاویر بنا لیتے ہیں،یا بعض لوگ بہت زیادہ اصرار کرتے ہیں، بہرحال میں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، اور وقتا فوقتا  اپنے ان جذبات کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں کہ تصویر سے بچیں اور ہمیں بھی بچائیں، تصویر حرام ہے اور شریعت میں اس کی قطعا کوئی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی میری تصویر بنائے۔

سوال: شیخ محترم آپ نے مدرسے کی تدریس چھوڑ کر کالج کا رخ کیوں کیا؟ ہمارے معاشرے میں کئی ایک اساتذہ معاشی حوالے سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

جواب: میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے  تکمیلِ حصولِ علم کے بعد جامعہ رحمانیہ لاہور میں تدریس شروع کردی تھی، اور ساتھ ساتھ ایم اے اسلامیات، اور ایم  اےعربی بھی مکمل کیا،  جامعہ رحمانیہ میں ایک پروفیسر مسعود اقبال رحمہ اللہ ہوا کرتے تھے، ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ اپنے کاغذات دیں، آپ کو پروفیسر لگواتے ہیں، مجھے سرکاری ملازمت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن میں نے پھر بھی کاغذات انہیں دے دیے، آخر کار پبلک سروس کمیشن  وغیرہ میں امتحانات دینے کے بعد میری  بطور لیکچرر تقرری ہو گئی، تو میں نے اپنے استادِ محترم  شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان مدنی رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ میری لیہ ایک کالج میں تعیناتی ہوگئی ہے، آپ فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شیخِ محترم نے فرمایا: دینی مدارس کے حالات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ اس میں  انسان کو معاشی تحفظ بالکل نہیں ہوتا، ایک عالم یا مدرس کو کسی بھی وقت جواب دیا جاسکتا ہے، لہذا اگر آپ کو سرکاری نوکری مل رہی ہے، تو آپ اس فرصت کو غنیمت جانیں، اور وہاں جاکر دین کا کام کریں، یقینا اُس میدان میں بھی کام کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ یہاں تو دین سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہی آتے  ہیں،  جبکہ کالجز میں ایسے بچے آتےہیں، جو دین سے بالکل نابلد ہوتے ہیں ۔  لہذا میں مدرسہ کی تدریس کو خیر باد کہہ کر کالج میں آگیا، اور سرکاری ڈیوٹی جوائن کرلی۔ میں کوئی بڑا دعوی تو نہیں کرتا، لیکن اتنا ہے کہ کالج میں ہزاروں طالبعلم، جو میرے سٹوڈنٹ رہے، انہیں صحیح مسلک ومنہج کی سمجھ آئی، پہلے وہ اسلامیات پڑھتے، پھر بعد میں سوال جواب شروع ہوجاتے، یوں  مناسب تربیت اور حکمت عملی کے  نتیجے میں ان کے دلوں سے  اہلِ حق کے بارے میں جو نفرت اورکدورت تھی، ختم ہوتی گئی، بلکہ بعض طالبعلم باقاعدہ طور پر میرے پاس مسجد میں بھی آنا شروع ہوگئے، اور بالخصوص نمازِ جمعہ میری اقتدا میں ادا کرتے تھے، وللہ الحمد۔

 اور پھر چونکہ سرکاری ملازمت کی وجہ سے معاشی طور پر استحکام بھی نصیب ہوا ، اس لیے اللہ تعالی نے یکسوئی کے ساتھ تحقیق وتصنیف کا کام کرنے کی بھی توفیق دی،  جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

(والحمدلله الذي بنعمتہ تتم الصالحات)