پروفیسرحافظ ثناءاللہ خاں صاحب رحمہ اللہ کامختصر تعارف

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ۔
“جب انسان فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایاجائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔

پیدائش
حافظ ثناءاللہ خاں رحمہ اللہ 1939ء کو ہندوستان کے مشہور معروف گاؤں کلس راجپوتان میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد محترم حافظ عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ کے نام سے جانے جاتے تھے عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ کا گھرانہ دینداری اور تقویٰ وپرہیزگاری میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔
کلس کی وجہ تسمیہ
اس گاؤں کو دو وجوہات کی بنا پر یہ نام دیا گیا پہلی تو یہ ہے کہ یہ گاؤں باقی علاقوں کی نسبت سطح کے لحاظ سے کچھ اونچا تھا کیونکہ کلس مساجد کے میناروں کے اوپر لگی ہوئی سٹیل یعنی چمنی کو کہتے ہیں تو اس کی نسبت سے اس کو کلس کہاجاتاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس گاؤں میں بسنے والے تمام لوگ ایک ہی ذات پات اور ایک ہی ہزاروں ونسل سے تعلق رکھنے والے تھے اور سب کے سب اہل حدیث لہذا ان دو وجوہات کی بنا پر یہ گاؤں کلس راجپوتان کے نام سے معروف ہوگیا۔
ابتدائی تعلیم
پروفیسر حافظ ثناءاللہ خان رحمہ اللہ کی شیرخوارگی کازمانہ گزرا اور جب کچھ بولنے پڑنےکے قابل ہوئے والد محترم حافظ عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ نے آپ کو گھر میں ہی پڑھانا شروع کیاآپ رحمہ اللہ پر محنت کی ابتدا میں بہت زیادہ توجہ دی تو ساتھ دینی تعلیم اور تربیت بھی شروع کردی آپ رحمہ اللہ کو ناظرہ قرآن مجید پڑھایااوردعائیں وغیرہ سکھلائیں آپ رحمہ اللہ کے ابتدائی استاد آپ کے والد محترم تھے۔چھ یاسات سال کی عمر کو پہنچے توآپ رحمہ اللہ کو سکول داخل کروادیا آپ سکول میں پڑھتے رہے اور ساتھ ساتھ گھر میں ہی قرآن مجید بھی حفظ کرنا شروع کردیا آپ رحمہ اللہ کے والد محترم عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ نے آپ کو دینی تعلیم کا اکثر حصہ پڑھایا پھر بعد میں حفظ القرآن کے لیے ایک اور قاری صاحب مل گئے ان کے پاس پڑھتےرہے پھر ان کے بعد جب نو سال کی عمر کو پہنچے تو پاکستان کی آزادی کا بھی اعلان ہوگیا اور آپ رحمہ اللہ اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان آگئے۔
پاکستان میں ہجرت
پاکستان میں ضلع قصور میں واقع گاؤں “سرہالی کلاں” میں قیام کیا اور پھر یہاں آکر آپ نے پرائمری پاس کی اور قاری محمد خدا بخش سے قرآن مجید حفظ کیا اور ان کے ساتھ شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ اور ان کے بھائی حافظ مقصود صاحب رحمہ اللہ اکٹھے حفظ کیا لیکن باقاعدہ کسی ادارے میں داخلہ نہیں لیالیکن پروفیسر صاحب نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے پہلے حفظ مکمل کرلیا پھر اس کے بعد ایک قدس نامی مسجد میں تراویح پڑھاتے رہے مکمل قرآن مجید سناتے تھے
میٹرک کا امتحان
حافظ ثناءاللہ خاں رحمہ اللہ نے پرائمری اور حفظ القرآن پاکستان ہجرت کے بعد مکمل کیا پھر جب پرائمری کے بعدہی تعلیم شروع کی تو گاؤں سے باہر تقریبا پانچ کلو میٹر کی دوری پر ہی للیانی نام سٹال پر ایک سکول قائم تھا وہاں پڑھنے کے لیے جانے لگے اور ساتھ ساتھ اپنے والد محترم عبداللہ کلسوی رحمہ کے پاس علوم اسلامیہ پڑھتے
حافظ عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ خود بہت زیادہ توجہ دیتے تھے اور آپ رحمہ اللہ کو خوب محنت کے ساتھ پڑھاتے اور جب سکول کاوقت ہوتا تو سکول پڑھنے کے لیے بھیج دیتے۔
کالج کی تعلیم
میٹرک مکمل کرنے کے بعد آپ کی مزید آگے پڑھنے کی خواہش تھی اور شوق تھا آپ رحمہ اللہ نے اپنے والد محترم سے گفتگو کی توانہوں نے اجازت دے دی ممدوح نے کہا مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں والد صاحب نے جب شوق بھی دیکھا اور اپنی بھی خواہش تھی کہ تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونا چاہیے اسی دوران ہوا کچھ یوں کہ حافظ عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ اپنی مکمل فیملی کو لےکروزیرآباد چلےگئے کیونکہ آپ رحمہ اللہ مستقل طور پروزیرآباد جماعت اہل حدیث کے مشہور معروف علمی شخصیت حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمہ اللہ کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے جس کے آنے جانے میں دقت تھی بہرحال ساری فیملی وہاں چلی گئی لیکن اب وہاں پر مسئلہ یہ تھا کہ میٹرک کے بعد کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا
کالج کے ایک دوست نے کہا کہ آپ کے بیٹے نے میٹرک کرلیا ہے کافی ہے اس کو آپ انگریز بنانے لگے ہیں کالج میں داخلہ کروانے کی بجائے آپ اپنے بچے کو دینی علوم میں پختہ کریں اور اس پر توجہ دیں عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ نے اس بات کو بہت محسوس کیا اور اپنے بیٹے سے اس بات کا اظہار کیااور کالج جانے کی بجائے اس کو دینی ادارے میں داخل کروادیا جائے حافظ صاحب نے آگے سے جواب دیا کتنا حسن جواب دیا کہنے لگا ابا جان میں کالج میں پڑھوں گا لیکن میں آپ کو اس بات کی گارنٹی دیتا ہوں نہ میں داڑھی کٹواؤں گااور نہ ہی میری شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکے گی یہ بات سن کر عبداللہ کلسوی رحمہ اللہ بہت زیادہ خوش ہوئے اور اپنے بیٹے کو کالج جانے کی اجازت دے دی حافظ صاحب کی شخصیت پر کالج کے ماحول پر مغربی کلچر کا ذرہ بھی اثر نہیں ہواحافظ صاحب نے ایم۔اے اسلامیات، ایم اے عربی میں کامیابی حاصل کی۔
ہم عصر احباب
(1)حافظ عبدالحفیظ صاحب رحمہ اللہ
(2)محترم جناب نسیم اصلاحی صاحب
(3)محترم جناب پروفیسر عظمت صاحب
علمی رحلات
پروفیسر حافظ ثناءاللہ خان رحمہ اللہ 1979ء سعودی عرب میں “الغةالعربیہ” میں داخلہ ہوگیاوہاں چلےگئے اور دو سالوں کا کورس مکمل اس کے بعد شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ بھی سعودی عرب میں حدیث کے حلقے ہوا کرتے تھےوہاں مشائخ کرام سے بھی ملاقاتیں کیا کرتے تھے کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے چار سال کا عرصہ وہاں پرگزارا تھا۔
تدریسی خدمات
پروفیسرحافظ ثناءاللہ خاں رحمہ اللہ نے بچپن سے لےکرجوانی تک دین کی اوردنیا کی دونوں قسموں کی تعلیم حاصل کی دین کو بھی قائم رکھا اور دنیا کو بھی حاصل کیا اور کامیابی سے ہمکنارہوئے۔لیکن بات صرف یہاں پرہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ آپ رحمہ اللہ نے ان علوم وفنون کوجاننے کے بعد ان کی قدرکی اور ان کو یادرکھا ان کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ دوسرے تک پہنچانے کی جہاں تک زندگی نے اور صحت نے اور وقت نے ساتھ دیا وہاں تک کوشش کی آپ نے لوگوں کو دین کا علم ممبر و محراب میں ہوتے ہوئے بھی سکھایا اور سکول کالج کی لائف میں بھی لوگوں کو سیدھی راہ پر چلنے میں عمرگزاردی آپ رحمہ اللہ نے بہت سی جگہوں پر تدریسی خدمات سرانجام دیں جن میں سے سب سے پہلے سعودی عرب سے فراغت کے بعد واپسی آئے تو آپ رحمہ اللہ دیال سنگھ کالج میں تدریسی فرائض سر انجام دیے وہاں آپ رحمہ اللہ نے تقریبا چار یا پانچ سال تک پڑھایا اس کے بعد پھر پبلک سروس کمپیشن کے تھرو شکرگڑھ میں اپوائئمنٹ ہوگی آپ رحمہ اللہ نے گورنمنٹ کالج لاہور( جی سی یونیورسٹی)میں بھی اپلائی کیاہوا تھا بہرحال شکرگڑھ میں کچھ دیر پڑھایا اس کے بعد شیخوپورہ آگئے وہاں پڑھاتے رہے اتنے عرصے میں آپ رحمہ اللہ گورنمنٹ کالج لاہور میں اپلائی کرنے میں کامیاب ہوگئےتقریبا چھ ماہ تک وہیں پڑھایا۔حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ نے آپ سے کہا کہ آپ کالج سے استعفی دے کرہمارے ادارے(مدرسے ) میں آجائیں اور وہاں آکر پڑھائیں آپ کالج میں پڑھاتے رہے اس کو چھوڑدیا اور یہاں آکر دین کا پڑھائیں کیونکہ اس کے ساتھ آپ رحمہ اللہ خواتین کو بھی پڑھاتے تھے ان کو عربی زبان سکھاتے تھے جب ریاض سے پڑھ کرآئےتب سے ہی عربی کا لیکچر دینا شروع کردیا تھا لاہور میں باقاعدہ ان کی کلاسیں ہواکرتی تھی مولانا عبدالرحمن مدنی صاحب حفظہ اللہ نے مدعو کیا توآپ رحمہ اللہ نے کالج میں استعفی دے دیا اور مدرسے آگئے لیکن اللہ تعالی کا ایسا کرناہواکہ اللہ تعالی آپ کو یہ کام منظور نہ ہوا تھا ہوا کچھ یوں کہ آپ رحمہ اللہ نے استعفی پر سائن اردو میں کرنے کی بجائے انگلش میں کردیے کیونکہ جب آپ رحمہ اللہ نے کالج میں اپلائی کیا تھا آپ کے سائن اردو میں تھے اور آپ رحمہ اللہ کے سائن میں مطابقت نہ
ہوسکی جس کی وجہ سے آپ رحمہ اللہ کا استعفی منظور نہ ہوسکا
تقریبا 20 سال تک سن 2000ء تک گورنمنٹ کالج (جی سی یونیورسٹی ) لاہور میں پڑھایا۔
خطابت
خطبہ جمعۃ المبارک حافظ صاحب نے جوانی سے ہی شروع کردیا تھا جس سے آپ رحمہ اللہ نے علوم اسلامیہ پڑھا تب سے ہی خطبہ دے رہے تھے پہلے تو جامع مسجد رحمانیہ میں پڑھاتے رہے پھر مسجد ربانی(سمن آباد لاہور )میں جمعہ پڑھانا شروع کردیا اور اس کے علاوہ نارووال میں بھی جمعہ پڑھاتے رہے لیکن وفات پانے سے ایک سال قبل چھوڑ دیا تھا کیونکہ ہمت نہ رہی تھی آپ رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ کا موضوع زیادہ تر “موت اور آخرت “پر ہوتا اور اکثر مواقع پر حلال اور حرام کے متعلق اور زکوۃ کے متعلق بھی ہواکرتا تھا اور تکبیر اولی کے موضوع پر بہت زیادہ بیان کرتے تھے کہتے تھے یہ ہر بندے کے لیے ضروری ہے
وفات
82 سال کی عمر پاکر 24رمضان 2020ء کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالٰی شیخ محترم کی جہود طیبہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم:جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: مولانا حافظ عباس انجم گوندلوی رحمہ اللہ