سوال

باپ کی وراثت کی تقسیم میں کسی ایک فرد کے ساتھ لاعلمی کی وجہ سے زیادتی ہوگئی، جان بوجھ کر یہ زیادتی نہیں کی گئی۔  نہ کم لینے والے کو علم ہوا اور نہ زیادہ لینے والے کو علم ہوسکا۔  تقریباً دس سال کے بعد اس غلطی/ زیادتی کا احساس ہوا ہے۔ اب اس صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قرآن کریم نے جہاں وراثت کے حصوں کو بیان کیا ہے وہاں قرض اور وصیت کا ذکر بھی کیا ہے۔اور فرمایا: “غیر مضار”. کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اسی طرح وراثت کےحصص دینے میں اگر کسی کو نقصان پہنچایا گیا ہو، وہ  دانستہ ہو یا غیر دانستہ ،اس کی بھی تلافی ہونی چاہیے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَا اِثْمَ عَلَیْهِ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ [سورۃ البقرہ:۱۸۲]

پھر جس کو وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری یا گناہ کا اندیشہ ہوتو وہ ان کے درمیان  اصلاح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

یعنی اگر غیر شعوری طور پر کسی کو حصہ کم  یا زیادہ ملا ہے ،تو اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔

جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی زندگی میں سارے غلام آزاد کر دیئے۔ظاہر ہے اس میں ورثاء کی حق تلفی تھی۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلافی اس طرح کی  کہ ان غلاموں کو بلایااور قرعہ اندازی کے ذریعے  جتنا اس کو وصیت کا حق تھا یعنی 1/3، اتنی نافذ کردی ۔ یعنی  دو  آزاد کر دیئےاور باقی چار ورثاء میں تقسیم کر دئیے۔ (صحیح مسلم:1668)

اس کا صاف مطلب ہے کہ حقوق العباد میں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے،تو اس کا حق ادا کرکے اس کی تلافی  کرنا ضروری ہے۔اب جس کا حصہ مارا گیا ہے اس کو حصہ واپس کیا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ