سوال

کیا حقیقی ماں باپ کےعلاوہ کسی دوسرے کو امی یا ابو کہا جا سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ہمارے ہاں اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ حقیقی ماں اور باپ کے علاوہ کسی اور کو امی یا ابو کہنا جائز ہے؟

خاص طور پروہ خواتین جن کی نئی نئی شادی ہوتی ہے، اور وہ اپنے سسرال جا کر سسر کو ابو اور ساس کو امی کہنے میں ہچکچاہٹ  محسوس کرتی ہیں۔  اور اسے دینی مسئلہ سمجھتی ہیں۔تو اس سلسلہ میں ہماری گزارش یہ ہے ، کہ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے ،بلکہ معاشرتی مسئلہ ہے۔شرعی مسئلہ میں تو قرآن و سنت سے دلیل طلب کی جاتی ہے۔ اور معاشرتی مسائل میں معاشرے کو دیکھا جاتا ہے۔ہمارے معاشرہ میں استاد اور سسر کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔

لہذا معاشرتی طور پر سسر کو باپ اور ساس کو امی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ویسے شرع میں  ماں باپ کے علاوہ بھی اس لفظ کا اطلاق  کیا گیا ہے۔ مثلا:چچا پر باپ کا لفظ بولا گیا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تھا”ما تعبدون من بعدی”تم میرے مرنے کےبعد کس کی عبادت کرو گے؟انہوں نےجواب دیا:

نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهیمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖ-ۚ وَّ نَحْنُ لَه  مُسْلِمُوْنَ[ سورۃ البقرہ:133]

آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے‘۔

اسماعیل علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا ہیں ان پر’ اب‘  کا لفظ بولا گیا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا:

وَٱتَّبَعْتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِكَ بِٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ ۚ [سورۃ یوسف: 38]

’میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم واسحاق اور یعقوب کے دین کا، ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں،۔

اس آیت میں بھی اسحاق علیہ السلام یوسف علیہ السلام کے دادا ہیں پھر بھی ان پر اب کا لفظ بولا گیا ہے۔

اور ہم دیکھتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی ماں کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن عظیم میں محرمات کا بیان ہے:

وَأُمَّهتكم الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُم [سورۃ النساء: 23]

وہ مائیں بھی تم پر حرام ہیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے۔

اس آیت میں حقیقی ماں کے علاوہ اس کو بھی ماں کہا گیا ہے جس نے بچے کو دودھ پلایا ہو۔

اور حدیث پاک میں آتا ہے ،کہ فتح مکہ کے موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 “الخالة بمنزلة الأم”. [بخاری:4251]

جو خالہ ہوتی ہے وہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے۔

حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر اس لڑکی کی خالہ تھی۔اس بنا پر خالہ کو بھی ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔

ان دلائل کی بنا پر کوئی حرج نہیں کہ حقیقی ماں باپ کے علاوہ کسی اور کو امی ابو کہہ دیا جائے۔ خوامخواہ اس کو شرعی مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اور دین میں اس کو استقامت کا درجہ دیا جاتا ہے، کہ اس پرہم سختی پر قائم ہیں اور کسی کی بات کو خاطر میں نہیں لاتے۔حالانکہ کتاب و سنت میں بھی اس کے دلائل موجود ہیں اور معاشرہ میں بھی یہ بات رائج ہے۔

لیکن اس میں اتنی بات یاد رکھیں یہ صرف مسئلہ جواز کا ہے۔یعنی سسر کو ابو اور ساس کو امی کہنا جائز ہے ، ضروری اور واجب نہیں ہے۔

کوئی لڑکی سسر کو ابو اور ساس کو امی کہہ دے تو کسی قسم کا اعتراض بھی نہیں ہے۔  اور اگر نہ کہے تو اس پر زبردستی بھی نہیں ہے، یہ اس لڑکی کی صوابدید پر ہے۔

نوٹ: اپنی ولدیت اور نسبت تبدیل کرنا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو کہ قطعی حرام ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے فتوی نمبر 78 ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ