سوال

میرا 3 مارچ 2019ء کو نکاح ہوا، لیکن  رسمی طور پر رخصتی نہیں ہوئی تھی، لیکن ہمارے گھر پاس پاس ہیں، اس لیے ہمارے میاں بیوی کے تعلقات قائم بھی ہوگئے، پھر پندرہ دن بعد فون پر بات کرتے ہوئے  ہمارا اختلاف ہوا، اور میں نے  بیوی کو کہا کہ اگر آپ نے میرا کہنا نہ مانا تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا۔ اس نے فون بند کردیا۔لیکن گھنٹے بعد دوبارہ ہماری صلح ہوگئی،  اورہم نے راضی خوشی بات کرنا شروع کردی۔

ایک ماہ بعد دوبارہ وہی مسئلہ ہوا کہ میری اہلیہ کہیں جانا چاہتی تھیں، میں نےر وکا اور کہا کہ اگر تم نے میرا کہنا نہ ماناتو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔

کچھ دنوں بعد ہماری باقاعدہ  رخصتی ہونے والی ہے، لیکن میری بیوی کہتی ہے کہ آپ تو مجھے دو دفعہ طلاق دے چکے ہیں، اب ہماری شادی کیسے ہوسکتی ہے؟

برائے مہربانی رہنمائی کیجیے کہ یہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں کہ نہیں؟ اور اگر ہوئی ہیں تو پھر رجوع کا طریقہ کار کیا ہے؟

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

  • سوال سے واضح ہوتا ہے کہ سائل نے بیوی کو طلاق کی دھمکی تو دی ہے، لیکن طلاق نہیں دی، لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔ ہاں البتہ اگر حقیقت میں سائل نے بیوی کو طلاق دی ہے، جیسا کہ ان کے بقول ان کی بیوی کا کہنا ہے، تو پھر ایسی صورت میں یہ دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، بلکہ رجوع کا حق بھی ختم ہوچکا ہے، کیونکہ   رخصتی یعنی خلوتِ صحیحہ سے قبل  دی گئی طلاق کی نہ کوئی عدت ہوتی اور نہ رجوع۔

اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا} [الأحزاب: 49]

اے ایمان والو! اگر تم نکاح کرو،  پھر عورت کو چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو ان کے ذمے عدت گزارنا نہیں ہے۔

ہاں البتہ تجدیدِ نکاح ہوسکتا ہے۔  لہذا اگر سائل اپنی بات میں سچا ہے توپھر اس کا نکاح باقی ہے، اور وہ کسی بھی وقت رخصتی کرسکتا ہے، اور اگر اس کی بیوی سچی ہے کہ اس کے خاوند نے طلاق دی ہے، تو پھر رخصتی سے قبل دوبارہ  نکاح کرنا ضروری ہے۔

  • ایک اہم بات جس پر توجہ دینا ضروری ہے کہ ابھی آپ کا صرف نکاح ہوا ہے، اور آپ نے انتہائی مختصر مدت کے اندر اندر طلاق جیسا انتہائی اقدام دو مرتبہ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ رویہ معاشرتی زندگی کے لیے کسی طور بھی درست نہیں ہے۔  اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن  غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں  بے قابو ہوکر انتہائی اقدام کرنا خطرناک ہے، لہذا اس کی وجوہات کو تلاش کریں، پھر ذہنی جسمانی روحانی جو بھی وجہ ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں  کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ: یہ فتوی فریقِ واحد سے ممکنہ چھان بین کےبعد تحریر کیا گیاہے، اور پوری کوشش کی گئی ہے کہ فریقِ ثانی بھی اپنا موقف دے دے، لیکن سائل کے بقول وہ بات کرنے پر راضی نہیں ہیں، لہذا معلومات میں کسی قسم کی کمی بیشی کا ذمہ دار براہ راست سائل ہوگا۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ إسحاق زاہد حفظہ اللہ