سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ میں  قمر الزمان سکنہ ضلع ناروال اپنی بہن کی طلاق کا مسئلہ آپ سے بیان کررہا ہوں۔ میری بہن کی شادی پسرور کے رہائشی محمد عدنان سے ہوئی جن سے انکی ایک بیٹی بھی ہے عدنان مسقط میں نوکری کرتا ہے میری بہن فروری کے اواخر میں اپنی بڑی بہن سے ملنے شکڑگڑھ گئی وہاں عدنان سے فون پر کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی اسنے کہا کہ میں تمھیں طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں یہ سن کر بہن رونے لگ گئی دوسری بہن نے پوچھا کہ کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ عدنان نے مجھے طلاق دے دی ہے تھوڑی دیر کے بعد عدنان کا دوبارہ فون آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے تمھیں طلاق نہیں دی بلکہ تمھیں ڈرا رہا تھا خیر دوبارہ سے انکی بات چیت ہوتی رہی بہن ہمارے گھر آگئی تقریبا 15 سے 16 دن بعد دوبارہ انکا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے پھر وہ طلاق طلاق طلاق کہتا ہے اور بہن رونے لگ جاتی ہے پھر آدھے گھنٹے بعد فون آتا ہے پھر وہی بات کہ میں تمیں ڈرا رہا تھا پھر بہن نے ہم میں سے کسی کو نہیں بتایا اور وہ اپنے سسرال چلی جاتی ہے اسی دوران رمضان المبارک کا مہینہ اجاتا ہے اسی دوران عدنان کے رشتے داروں میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے ہمارے گھر والے وہاں گئے جنازہ پڑھا اور اس آگئے دوبارہ بہن کو عیدی دینے گئے اور پھر فوتگی والے گھر گئے اور بیٹھ کر آگئے اسی رات کو عدنان اپنے گھر والوں کو فون کرتا ہے گھر والے کہتے ہیں کہ تمھارے سسرال والے فوتگی والے گھر میں فاتحہ نہیں پڑھ کر آئے اسی بات کو لے کر عدنان کی پھر بہن سے لڑائی ہوتی ہے اور وہ پھر اسے طلاق طلاق طلاق کہتا ہے بہن ہمارے گھر والوں کو فون کرتی ہے اور اسی رات کو جھگڑا کر کے گھر واپس لے آتے ہیں اور اسی دن سے لے کر آج تک لڑکا عدنان یہی کہہ رہا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی بہن پہلے تو کہتی رہی کہ اس نے تین بار تین تین دفعہ طلاق دی تھی اب بہن یہ کہتی ہے کہ مجھ سے سننے میں غلطی ہوئی ہے وہ مجھے ڈرانے کے لئے کہہ رہا تھا شاید کہ میں تمھیں طلاق دے دونگا اب آپ علماء کرام سے میری درخواست ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم اس معاملے کو کس طرح حل کریں اسلام کی روح سے تاکہ کل عند اللہ ہماری پکڑ نہ ہو ۔بارک اللہ فیکم

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده !

  • سوال کے مطابق ہمیں یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ لڑکے نے تین مختلف اوقات میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ لہذا اب ان کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے میاں بیوی نہیں رہے۔ لیکن طلاق دینا چونکہ خاوند کا حق ہے، لہذا اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی، بلکہ میں ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ کہتا رہا ہوں کہ ’ میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘ اور یہ نہیں کہا کہ ’تمہیں طلاق ہے‘، تو ایسی صورت میں  لڑکے کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، بالخصوص جب لڑکی بھی یہ بیان دے رہی ہے کہ لڑکے نے طلاق نہیں دی، بلکہ میں نے اس کی دھمکی کو غلطی سے طلاق سمجھ لیا تھا۔ تو پھر طلاق نہیں ہوئی۔ اب لڑکے یا لڑکی کی بات میں کس قدر سچائی، اس کے وہ اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔
  • نکاح ایک مقدس اسلامی رشتہ ہے، اور طلاق  بامر مجبوری اس سے خلاصی کا ایک ذریعہ ۔ لہذا اسلامی تعلیمات واصطلاحات کو یوں ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرنا قطعا نامناسب رویہ ہے۔   جو لوگ بات بات پر طلاق طلاق والا کھیل کھیلتے ہیں، گویا اللہ کے بنائے ہوئے نظام کا استہزاء واستخفاف کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے۔
  • غصہ یا خوشی ہر انسان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، لیکن بطور ایک اچھے مسلمان اور ذمہ دار انسان ہمیں خوشی یا غصے دونوں حالتوں میں خود پر اتناضبط اور کنٹرول ہونا چاہیے کہ ہم کسی بھی انتہائی اقدام سے بچ سکیں، جس کی بعد میں ہمیں ہمیشہ پشیمانی رہے۔ اور اگر واقعتا محسوس ہو کہ بعض دفعہ ہمیں خود پر کنٹرول نہیں رہتا، تو اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یقینا اس کی کوئی جسمانی، نفسیاتی یا روحانی وجہ ہوسکتی ہے، کہ انسان شیطان کے ہاتھوں اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ  وہ  اپنے عزیز واقارب جن کے ساتھ اس کی پوری زندگی جڑی ہوئی ہے،   سے نفرت وبغض اور علیحدگی کے اظہار میں ذرا وقت نہیں لگاتا۔
  • جہاں جیتے جاگتے انسان ہیں، وہاں اختلافات بھی ہوتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے یہ اختلافات اس قدر سنگیں شکل اس لیے اختیار کر جاتے ہیں، کیونکہ ہم دین کی تعلیمات سے  دو ہوجاتے  ہیں، اللہ کے ذکر   سے اعراض کرلیتے ہیں، اس کی بندگی میں کوتاہی کرتے ہیں، نتیجتا اللہ تعالی ہماری ہنسی خوشی والی زندگی کو مشکل بنادیتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھریلو معاملات، عزیز رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات و اختلافات معقول حد تک رہیں، تو ہمارے لیے  ان خامیوں کوتاہیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
  • سائل سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ لڑکا لڑکی دونوں کو بٹھا کر نصیحت کریں، انہیں نکاح وطلاق کی اہمیت سمجھائیں، اور ان سے تاکید کرلیں کہ واقعتا لڑکے نے طلاق دی ہےیا نہیں دی؟ اور یہ کہ اس معاملے میں جھوٹ بولنا اور غلط بیانی کرنا  انتہائی خطرناک جرم ہے۔ اگر وہ اقرار کریں کہ واقعتا طلاق دے دی تھی، تو انہیں فورا علیحدہ کردیا جائے، کیونکہ تین طلاق واقعہ ہونے کے بعد رجوع اور نکاحِ جدید دونوں حق ختم ہوجاتے ہیں،  الا یہ کہ لڑکی کی کہیں اور شادی ہوجائے، اور پھر اس خاوند کی وفات یا اس سے طلاق کے بعد وہ دوبارہ اس لڑکے سے شادی پر رضامند ہو۔ اور اگر وہ کہیں کہ طلاق نہیں دی، تو اللہ کا شکر ادا کریں، او ر انہیں نصیحت کرکے،   ایک اچھے میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی تلقین کریں۔

( طلاق سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے  فتوی نمبر 8،9 ،11 بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔)

 وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ