سوال

سورہ نمل کی آیت نمبر 21 میں ذکر ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ہدہد  کے غیر حاضر ہونے پر اس کے متعلق کہا کہ میں اسے سخت سزا  دوں گا، بلکہ ذبح کردوں گا،  اگر وہ کوئی واضح دلیل نہ لے کر آئی۔ بلا شبہ انبیائے کرام اعلی ترین اخلاق واوصاف کے حامل ہوتے ہیں، لیکن یہاں اس قدر سخت کلامی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کتبِ تفسیر میں اس واقعے کے حوالےسے کافی تفصیلات ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لاؤ لشکر میں انسانوں کے علاوہ، جن اور پرندے بھی ہوتے تھے۔ سب کی مختلف ذمہ داریاں ہوا کرتی تھیں۔    آپ علیہ السلام  سب کا جائزہ لے رہے تھے،یا کسی کام سے انہیں ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی، تو انہوں نے  ہدہد کو گم پایا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کی غیر حاضری بلا اطلاع تھی، جو یقینا قابل مواخذہ تھی۔

بہترین قائد اور سپہ سالار وہ ہوتا ہے، جو نرمی کی جگہ پر نرمی، اور سختی کے موقعہ پر سختی کرتا ہے، ہر وقت سختی رکھنا یا ہر معاملے میں نرم رویہ رکھنا، یہ دونوں رویے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

سپاہی کا لشکر سے غائب ہونا، اس میں مختلف احتمالات ہوسکتے ہیں، مثلا اس کا مخالف فوج سے میل جول ہو، اور وہ ادھر اپنے لشکر کی خبریں اور معلومات دینے جاتا ہو، یا پھر وہ اپنے کسی ذاتی کام سے غائب ہو، لیکن اہم ذمہ داری کو چھوڑ کر جائے، جس سے لشکر کا بھاری نقصان ہوسکتا ہو، یا پھر اس کا کوئی معقول عذر ہو۔ پہلی صورت میں تو یقیناغائب ہونے والے کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، دوسری میں بھی نرمی نہیں ہونی چاہیے، ورنہ آہستہ آہستہ سارے کا سارا لشکر انتشار اور بے ترتیبی کا شکار ہوجائے گا، ہاں اگر کوئی معقول عذر ہو، تو پھر نرمی اور رعایت کرنی چاہیے۔ ہدہد کو غیر حاضر پا کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی اسی حساب سے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے، کہ اگر اس کی  غلطی خطرناک نوعیت کی ہوئی، تو میں اسے سخت سزا  دے کر یا پھر  قتل کرکے، سب کے لیے نشانِ عبرت بنادوں گا، لیکن اگر اس نے کوئی معقول عذر، توجیہ اور دلیل پیش کردی تو پھر اس کو معافی مل جائے گی۔

اس واقعے سے سلیمان علیہ السلام کی  کمال احتیاط، نظم ونسق  کی پابندی، اور لشکر کی بذات خود نگرانی کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قائد  اپنی فوج سے غیر حاضر ہونے والوں کا حسبِ حال مواخذہ کرسکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سب کے سامنے سزا کا اعلان کیا جاسکتا ہے، تاکہ دیگر لوگ بھی عبرت پکڑیں اور احتیاط کریں۔ قائدین کے لیے یہ بھی رہنمائی ہے کہ کسی خلاف ورزی یا غیرحاضری پر  سزا یا تادیبی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے، ملزم کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقعہ دینا چاہیے، اور معقول عذر کو قبول کرنا چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ