سوال

دوران نماز ماتھے پر پگڑی وغیرہ ہو تو اس پر سجدہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد

علما کے مابین متفق علیہ مسئلہ ہے کہ سجدہ کرتے ہوئے براہ راست پیشانی رکھنا افضل ہے. (المجموع للنووی (3/400) البتہ بوقت ضرورت یا کسی عذر کی بنا پر درمیان میں کپڑا، پگڑی وغیرہ بھی حائل ہو تو جائز ہے، جیساکہ سنت نبوی اور آثار صحابہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔

:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

«كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحيح البخاري:385)

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، تو ہم سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کے سبب سجدے کی جگہ پر کپڑا رکھ لیا کرتے تھے۔

ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:

«فَإِ لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ وَجْهَهُ مِنَ الأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ، فَسَجَدَ عَلَيْهِ» (صحیح البخاری:1208)

:اگر کسی کے لیے زمین پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرلیتا

حسن بصری رحمہ اللہ نے بھی اس کو صحابہ کرام کے عمل سے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں

كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجدون وأيديهم في ثيابهم، ويسجد الرجل منهم على عمامته.(السنن الکبری للبيهقي:2447)

صحابہ کرام سجدہ کرتے تو ان کے ہاتھ کپڑوں میں ہوتے، اور ان میں سے کچھ پگڑی پر بھی سجدہ کرتے۔

مذکورہ بالا احادیث وآثار سے جہاں اس عمل کا جواز معلوم ہوتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام گرمی، سردی یا کسی عذر کے سبب ایسا کیا کرتے تھے۔ لہذا بلا سبب وضرورت اس عمل سے گریز کرنا چاہیے، یہی وجہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:2757)، ابن سیرین رحمہ اللہ نے بھی عمامے پر سجدے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:2763)

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ (نائب رئیس)