سوال

میرے بہنوئی کا قضائے الہی سے گزشتہ ہفتے انتقال ہو گیا۔ میں یہ سوال اس گھر کے بارے میں وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں جو اس نے مانچسٹر میں بینک کے ذریعے خریدا ہے۔ اس نے نقد رقم پر مکان خریدنے کی پوری کوشش کی لیکن مکان کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے نہ کر سکا۔ لہذا، مشاورت کے بعد اس نے مقررہ اقساط کے ساتھ بینک کے ذریعے مکان خریدا ہے، قسطوں کی تعداد مقرر ہے اور اگر وہ وقت پر قسط ادا کرنے سے قاصر ہوا تو اس پر کوئی سود نہیں ہو گا۔

کیا بینک کے ذریعے اس طرح قسطوں پر گھر لینا شریعت کے مطابق درست ہے؟ اس نے حال ہی میں مکان خریدا ہے اور 4 قسطیں ادا کی ہیں۔ اگر شریعت کے مطابق اس کی اجازت نہیں ہے تو کیا آپ اس کی ادا کردہ چار قسطوں کے لیے کوئی کفارہ تجویز کرتے ہیں؟

اسی طرح کیا ہم بینک کے ساتھ یہ ڈیل کینسل کر دیں، یا پھر اسی طرح آگے کسی اور کو بیچ دیں؟

فوت شدہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بیٹے پر کسی قسم کا کوئی بوجھ ہو! برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ہمارے علم کے مطابق موجودہ بینکاری نظام سارا ہی سودی نظام ہے اور یہ محض جھانسا دیا جاتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا سود نہیں ہے، لہذا اس کے ذریعے اقساط یا لین دین کے معاملات کرنا جائز نہیں۔

صورتِ مسؤلہ میں بینک سے گھر خریدنے والا فوت ہو چکا ہے، تو اس کے ورثاء کو چاہیے کہ  بینک کے ساتھ ڈیل کینسل کر دیں۔ بینک اگر راس المال واپس کر دیتا ہے تو ٹھیک، ورنہ احتیاط اور تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بھی چھوڑ دیا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

یہ بھی پڑھیں:سٹیٹ بینک سے اقساط پر قرض لینا

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ