سوال

اگر والد پر قرض ہو، تو کیا اولاد صدقہ فی سبیل اللہ نہیں دے سکتی، جب تک والد کا قرض اتر نہ جائے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق باپ کو حق ہے کہ وہ بیٹے کا مال لے سکتا ہے۔ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور شکایت کی کہ اس کا باپ اس کا مال ہڑپ کرجاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ» (سنن أبی داود:3530)

’تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے، بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے، لہذا تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھا لیا کرو‘۔

لہذا والد مقروض ہویا نہ ہو، وہ اولاد سے ان کامال   معروف طریقے سے لےسکتاہے۔ بالخصوص جب وہ مقروض ہے تو اولاد کافرض ہے کہ والد کی اعانت کرتے ہوئےاسے قرض سے نجات دلائے۔ تعاون نہ کرنے کی صورت میں وہ مجرم ٹھہریں گے۔

لہذا صورتِ مسؤلہ میں باپ مقروض کا مطلب ہے کہ بیٹے بھی مقروض ہیں،  اور مقروض پر قرض کی ادائیگی فرض ہے، جبکہ فی سبیل اللہ صدقہ و خیرات یہ نفلی عبادت ہے اور فرض کی ادائیگی نفل سے مقدم ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

«‌لَا ‌صَدَقَةَ ‌إِلَّا ‌عَنْ ‌ظَهْرِ غِنًى». [مسند أحمد 12/ 69 برقم 7155،  ط الرسالة ]

’محتاجی کی صورت میں کوئی صدقہ نہیں ہے‘۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے  صحیح بخاری  میں اس پر باب باندھا ہے:

«لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى. وَمَنْ تَصَدَّقَ وَهُوَ ‌مُحْتَاجٌ، أَوْ أَهْلُهُ ‌مُحْتَاجٌ، أَوْ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَالدَّيْنُ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَالْعِتْقِ وَالْهِبَةِ». [صحيح البخاري 2/ 518]

’محتاجی کی صورت میں کوئی صدقہ نہیں ہے، اور جس شخص صدقہ کرنا چاہتا ہے  حالانکہ وہ خود یا  اس کے اہل وعیال محتاج ہیں یا اس پر قرض ہے، تو  اس قرض کی ادائیگی صدقہ، عتق اورہبہ وغیرہ سے مقدم ہے‘۔

امام بدر الدین العینی اس کی تائید  و توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“والمعنى أن شرط التصدق أن لا يكون محتاجاً ، ولا أهله محتاجاً ، ولا يكون عليه دين، فإذا كان عليه دين : فالواجب أن يقضي دينه ، وقضاء الدين أحق من الصدقة والعتق والهبة؛ لأن الابتداء بالفرائض قبل النوافل”. [عمدة القاري :13/327]

’ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ صدقہ کے لیے شرط ہے کہ انسان خود یااس کے اہل و عیال محتاج نہ ہوں اور نہ اس پر قرض ہو، اگر قرض ہو تو پہلے قرض کی ادائیگی واجب ہے، کیونکہ قرض  صدقہ، عتق اورہبہ وغیرہ سے مقدم ہے، کیونکہ فراض نوافل سے پہلے ہیں‘۔

ہاں البتہ اگر قرض کی ادائیگی میں وقت کی مہلت ہو اور صدقہ وغیرہ قرض کی ادائیگی میں مانع نہ ہو، تو پھر قرض کی حالت میں بھی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«أما ‌إذا ‌كان ‌الدين ‌مؤجلاً ‌وإذا ‌حل ‌وعندك ‌ما ‌يوفيه ‌فتصدق ‌ولا ‌حرج ‌لأنك ‌قادر». [تعليقات  الشيخ على الكافي لابن قدامة 3/ 108  من الشاملة]

’ اگر قرض کی ادائیگی  میں مہلت اور تاخیر ہو اور بروقت ادا کرنا ممکن ہو تو پھر ادائیگی سے پہلے بھی صدقہ کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں‘۔

بلکہ  صدقہ و خیرات  ایسی نیکی ہے کہ قرض کی ادائیگی میں آسانی کا ذریعہ بن سکتی ہے، کیونکہ یہ خیر و برکت اور مال میں اضافے کا سبب ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

یہ بھی پڑھیں:بچوں کو جاندار چیزوں کے کھلونےلیکر دینا

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ