سوال (784)

گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل عائلی مسئلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔
ایک صاحب نے اپنی اہلیہ کو زبانی طلاق دی۔ مطلقہ کے بقول اس نے دس ماہ بعد دوسرے خاوند سے نکاح کر لیا جو رجسٹرڈ ہے- پانچ سال بعد پہلے شوہر نے عدالت میں نالش کر دی اور طلاق نامہ تحریری عدالت میں پیش کر دیا جو مطلقہ کے نکاح ثانی سے 48 دن پہلے کا تحریر کردہ تھا اور اس میں یہ موقف اختیار کیا کہ مذکورہ جب اس کی بیوی تھی تو اس کے مذکورہ دوسرے خاوند کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور یہ کہ میں نے تحفظ ناموس کی خاطر اسے طلاق دے دی کیونکہ وہ اس کے لیے باعث بدنامی اور اذیت تھی جبکہ اس سے میرے پانچ بچے بھی تھے۔
نیز یہ کہ مطلقہ نے عدت میں نکاح کیا ہے جو نا جائز ہے اور میں حق رجوع استعمال کرنا چاہتا تھا لہذا مطلقہ اور دوسرے خاوند کو اس فراڈ اور بددیانتی کی سزا دی جائے۔
پہلے خاوند نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ جب اس کی بیوی تھی تو اسے ماہواری باقاعدہ آتی تھی جب کہ طلاق کے وقت اس کی عمر پچاس سال تھی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ مذکورہ خاتون نے الزام تراشیوں سے بچنے کے لیے اس پیش کردہ طلاق سرٹیفکیٹ کے 90 دن بعد دوسرے خاوند سے دوبارہ نکاح کر لیا تھا۔
از راہ کرم اس معاملے میں مندرجہ ذیل امور میں میری رہنمائی فرمائیں کہ:
1۔ آیا اس نزاع میں عدت کے بارے میں خاوند کا بیان تسلیم کیا جائے گا یا عورت کا؟
2۔ کیا عورت کو سزا دی جائے گی کہ اس نے پہلے خاوند کے الزام کی رو سے اس کے نکاح میں رہتے ہوئے غیر محرم سے ناجائز تعلقات قائم کیے اور عدت میں نکاح کیا اور یوں وہ فراڈ اور بددیانتی کی مرتکب ہوئی۔
3۔ کیا دوسرے خاوند کو محض اس الزام میں سزا دی جائے گی کہ اس نے موجودہ اہلیہ کے سابقہ شوہر کے الزام کی رو سے اس کی بیوی سے ناجائز تعلقات قائم کیے، اس کا گھر اُجاڑا اور پھر عدت میں اس سے نکاح کر لیا اور یوں وہ فراڈ اور بددیانتی کا مرتکب ہوا۔
4۔ کیا پہلا خاوند مستحق سزا ہو گا کہ اس نے بغیر شرعی ثبوتوں کے اپنی مطلقہ بیوی اور اس کے دوسرے خاوند پر ناجائز تعلقات، زنا، بددیانتی اور فراڈ کے الزامات لگائے اور ان کی بدنامی کا سبب بنا اور کیا اسے قذف کی سزا نہیں دی جائے گی؟
5۔ شرع کی رُو سے قاضی کو ان تینوں میں سے کس کو سزا دینی چاہیے اور کتنی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مذکورہ مسئلہ میں حقیقی صورت حال اللہ بہتر جانتا ہے، البتہ اس میں کچھ اصولی باتوں کی شرعی وضاحت کی جا سکتی ہے:
عدت میں کس کی بات معتبر ہو گی؟خاوند بیوی پر الزام تراشی کرے تو اس کا حکم؟ عدت میں نکاح کا حکم
1۔ عدت میں کس کی بات معتبر ہو گی یہ مسئلہ سمجھنے کے لیے مطلقہ عورت کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں:
پہلی صورت: مطلقہ عورت آئسہ ہو۔ اس کی عدت متعین طور پر تین قمری ماہ ہو گی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

{وَٱلَّٰٓـِٔي يَئِسۡنَ مِنَ ٱلۡمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمۡ إِنِ ٱرۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَٰثَةُ أَشۡهُرٖ وَٱلَّٰٓـِٔي لَمۡ يَحِضۡنَۚ}. [الطلاق: 4]

’ایسی عورتیں جو حیض سے نا امید ہو گئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے، اسی طرح ان عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے جنہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا‘۔
اور مرد نے جس وقت طلاق دی ہے اس دن سے لیکر تین قمرے مہینے شمار کر لیے جائیں گے، اس میں عورت سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
دوسری صورت:ایسی عورت جو حائضہ ہو۔اس کی عدت تین حیض ہوتی ہے اور حیض کی مدت کم زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس میں عمومی اصول یہ ہے کہ حیض ایسی چیز ہے جس کے بارے میں عورت بہتر جانتی ہے۔
امام ابن قدامہ مدتِ حیض کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

«وقَوْلُهُنَّ يَجِبُ الرُّجُوعُ إليه؛ لقولِه تعالى: {وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} فلولا أنَّ قَوْلَهُنَّ مَقْبُولٌ لَما حَرَّمَ عليهنَّ الكِتْمانَ». [المغني لابن قدامة 1/ 389]

’حیض کی ابتداو انتہا میں عورتوں کی بات ماننا ضروری ہے، کیونکہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمانا کہ عورتوں کے لیے اپنے رحم میں موجود (حیض یا حمل) کو چھپانا جائز نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا تعلق انہیں کے ساتھ ہے، ورنہ انہیں مخاطب کرکے ان معاملات کو چھپانا ان پر حرام قرار نہ دیا جاتا‘۔
اسی طرح بعض صحابہ کرام سے مروی ہے، جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
«إن من الأمانة أن المرأة ‌اؤتمنت ‌على ‌فرجها». [مصنف ابن أبي شيبة 10/ 517 ت الشثري]
’امانت کا تقاضا یہ ہے کہ عورت کو اس کی شرمگاہ کے بارے میں قابل اعتماد سمجھا جائے‘۔
البتہ اس میں یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اگر عورت کا دعوی محال ہو، مثلا کوئی عورت یہ دعوی کرے کہ اس کو تین حیض تین دن میں مکمل ہو گئے ہیں، تو پھر اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔
’محال‘ اور ’ممکن‘ کی حد میں بھی اہلِ علم میں اختلاف ہے، اور اس کی بنیاد در اصل حیض کی مدت کے کم زیادہ میں اختلاف ہے۔ امام ابن المنذر نے ’کتنی مدت میں عورت عدت کی تکمیل کا دعوی کرے، تو اس کی تصدیق کی جائے گی؟‘ کے عنوان سے اہل علم کے چھے اقوال بیان کیے ہیں۔ (الاشراف 5/380، 381)
سب اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ عدت کے بارے میں عمومی اصول یہی ہے کہ عورت کی بات کو ترجیح دی جائے، اور اگر کوئی اشکال ہو تو ساتھ اس سے قسم بھی اٹھوائی جائے، اسی طرح مزید تصدیق کے لیے قریبی عورتوں کی گواہی کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور قاضی شریح رحمہ اللہ کے پاس اس قسم کا ایک کیس پیش ہوا، جس میں عورت نے دعوی کیا کہ ایک ماہ (بعض روایات میں 35 دن ہیں) میں اس کی عدت مکمل ہو گئی ہے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم پر قاضی شریح نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کی ہمسائیوں کو پوچھ لیا جائے، اگر تو وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ واقعتا اس کے تین حیض مکمل ہو گئے ہیں اور انہوں نے اسے اس مدت میں حیض کے سبب نمازیں چھوڑتے اور پھر طہارت حاصل کرکے پڑھتے دیکھا ہو، تو اس کی تصدیق کی جائے گی، ورنہ اس کا یہ دعوی قابلِ قبول نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کے اس فیصلے کی تائید فرمائی تھی۔
[مسند الدارمي برقم:883، السنن الكبرى للبيهقي:15/501-503، المغني لابن قدامة:10/564]
ابن المنذر ایک مسئلہ ذکر کرکے، جس میں مرد اور عورت کا عدت کے متعلق اختلاف ہے، فرماتے ہیں:
« إن القول قولها مع يمينها ». [الإشراف 5/ 380]
’ عورت سے حلف لے کر اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا‘۔
لہذا اگر تو مذکورہ عورت کا حائضہ ہونا ثابت ہے ، جیسا کہ اس کے پہلے خاوند کا بھی اقرار ہے تو پھر اس کی عدت کے ختم ہونے میں اس کی بات کا اعتبار کیا جائے، مزید تصدیق کے لیے اس سے حلف اور آس پاس سے گواہیاں لے لی جائیں۔
2۔ خاوند اگر اپنی بیوی پر زنا کاری کا الزام لگائے اور بیوی انکاری ہو تو اس میں شوہر کے پاس دو راستے ہیں:
یا تو چار گواہ پیش کرے، جس سے وہ الزام ثابت ہوتا ہو، یا پھر بیوی سے لعان کرے۔ اگر دونوں میں سے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر اس پر حدِ قذف جاری ہو گی ۔ اسی طرح اگر عورت اعترافِ گناہ کرے یا لعان کرنے سے انکار کر دے تو اس پر حدِ زنا جاری ہو گی۔
امان ابن المنذر فرماتے ہیں:

«ولو امتنع الزوج من الأيمان لوجب عليه القذف… وإذا التعن الزوج وجب حد الزنا على المرأة، إلا أن تدفع ذلك عن نفسها بالالتعان بقوله: {وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ} والعذاب الذي تدرأ عن نفسها في هذا الموضع، هذا العذاب الذي ذكره الله عز وجل وهو قوله: {وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ}». [الإشراف 5/ 331]

یعنی مرد لعان سے انکار کرے تو اس پر حدِ قذف ہوگی، اور اگر عورت لعان سے انکار کرے تو اس پر حدِ زنا جاری ہو گی۔
3۔ اگر تو پہلا شوہر چار گواہوں کے ذریعے ثابت کر دیتا ہے کہ دوسرے شوہر نے ا س کی بیوی سے بدکاری کی ہے تو پھر اس پر حدِ زنا جاری ہو گی ورنہ نہیں۔ اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ دوسرے شوہر نے عدت کے اندر عورت سے نکاح کیا ہے تو یہ نکاح باطل ہو گا اور ان دونوں میں فوری طور پر علیحدگی کروا دی جائے گی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أنه لا يصح العقد في الْعِدَّةِ”. [تفسير ابن كثير :1/ 484]

’تمام علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے دوران نکاح صحیح نہیں ہے‘۔
یہی فتوی عمر رضی اللہ عنہ سے بھی وارد ہے، آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اس طرح كا ايك معاملہ آیا، تو آپ نے فرمایا:

“أيُّما امرأةٍ نكَحتْ في عِدَّتِها، فإن كان الذي تزوَّجَها لم يدخُلْ بها، فُرِّق بينهما، ثم اعتَدَّتْ بقيَّةَ عِدَّتهِا مِن الأوَّلِ… وإن كان دخَل بها، فُرِّق بينهما، ثم اعتَدَّتْ بقيَّةَ عِدَّتِها مِن الأوَّلِ، ثم اعتَدَّتْ مِن الآخِرِ”. [شرح السنة: ٢٣٩٢]

ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی جائے۔ پھر جس کے ساتھ اس کا نکاح ہوا ہے، اگر اس نے دخول نہیں کیا تو خاتون اپنے پہلے خاوند کی عدت کو ہی پورا کرے گی۔اوراگر دخول ہوگیا تھا، تو یہ اپنے پہلے خاوند کی عدت پورا کرنے کے بعد دوسرے کی عدت کو بھی پورا کرے گی۔
اسی طرح اگر عدت میں نکاح کرنا ثابت ہو جائے تو پھر مرد، عورت، نکاح خواں وغیرہ جو بھی اس گناہ اور خلافِ شریعت عمل میں ملوث تھے، انہیں قاضی اپنی صوابدید پر تعزیری سزا دے سکتا ہے، تاکہ دیگر لوگوں کے لیے عبرت ہو اور وہ آئندہ شرعی حدود و قیود کی یوں خلاف ورزی نہ کریں۔
سوال کے آخر میں دو مزید باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1۔ اس قسم کے مسائل میں فتوی کے ساتھ ساتھ بطور جج اور قاضی فریقین، گواہوں اور ان کے بیانات اور گواہیوں کی تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ان کی ثقاہت و دیانت کی تصدیق کر لی جائے کہ ان کے دعووں اور بیانات پر اعتماد کرنا درست ہے یا نہیں!
2۔ ان عائلی مسائل کا تعلق براہ راست اس خاندان اور لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، جنہیں یہ مسائل درپیش ہیں، اس میں درست طریقہ یہی ہے کہ وہ لوگ خود مفتیان کرام سے رابطہ کر کے فتوی طلب کریں۔ عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کسی شرعی حکم کی معرفت اور علم ہو جانا کافی ہے، کسی خاص واقعے پر اس کی تنزیل و تطبیق ان کی دلچسپیوں کا مرکز نہیں ہونا چاہیے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ