اِس لیے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
فاسد مادے اگر جسموں میں جمع ہو جائیں تو ان کے نقصان کا دائرہ انسانی صحت تک محدود رہتا ہے لیکن اگر یہ مادے تخیّلات میں سرایت کرنے لگیں تو پھر ان کے مضر اثرات تمام حدودوقیود کو پھاند کر اس قدر پھیل جاتے ہیں کہ ان کو سمیٹنا، شکستہ آئنوں کے ٹکڑوں کو جمع کرنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ بھارتی لوگوں کی اس رَوِش کو عرصہ بیت چلا کہ انھیں جب پتا چلتا ہے کہ شکمِ مادر میں پرورش پانے والی لڑکی ہے تو وہ اسقاطِ حمل کروا ڈالتے ہیں۔ روشن بھارت کی صدائیں بلند کرنے والے ان لوگوں کے دماغ میں وہی خون آشام تیرگیاں سمائی ہیں جو اسلام سے قبل عرب کے مشرکوں کی سوچ میں رینگتی تھیں کہ بیٹی کا بوجھ کیوں کر برداشت کریں گے؟ اگر یہ سہ بھی لیا تو کوئی نہ کوئی تو ان کا داماد بھی بن جائے گا۔سو احساس کی اس صلیب پر وہ بیٹیوں کو لٹکا کر مار دیتے تھے۔ خود کو دنیا کی ضخیم وجسیم جمہوریت خیال کرنے والوں کا اندرون ویسا ہی تنگ وتاریک ہے جو صدیوں قبل عرب کے جاہلوں کا تھا۔مشرک کسی بھی عہد اور قبیلے کے ہوں ان میں مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ مشرک جب سب سے بڑا ظلم شرک کر لیتے ہیں تو پھر بچیوں کو زندہ درگور کرنے یا پیدایش سے قبل قتل کر دینے سے ان کے ضمیر پر خفیف سی خراش تک نہیں آتی۔
بھارت کی صرف ایک ریاست مدھیہ پردیش میں ایک سال کے دوران 17 ہزار لڑکیاں پیدایش سے قبل ماں کے پیٹ میں ہی قتل کر دی گئیں۔ بھارتی میڈیا اور محکمہ ء صحت یہ زہرناک انکشاف بھی کر چکا ہے کہ 2000ء سے لے کر اب تک بھارتی شہر اندور کی آبادی میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ حالاں کہ یہ شہر مدھیہ پردیش میں واقع ہے اور مدھیہ پردیش بھارت کی ایسی ریاست ہے جو تعلیم اور کاروبار کے حوالے سے ترقی یافتہ کہلاتی ہے، اسی ریاست میں ایک ہزار مَردوں کے مقابلے میں 917ء خواتین ہیں اور گوالیار میں تو یہ شرح صرف 811 ہے۔ چھے سال کی عمر کی لڑکیوں میں ڈھائی فی صد تک کمی بھارت کی بے حسی اور بے ضمیری کا ڈنکا بجا رہی ہے مگر بھارتی سینا اور نیتا آلتی پالتی مارے وہی روشن بھارت اور سب سے بڑی جمہوریت کی مالا جَپ رہے ہیں۔
ایک تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اندور شہر میں الٹراساؤنڈ سنٹرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ الٹراساؤنڈ کے بعد جب ماں کے پیٹ میں صنف کا علم ہو جاتا ہے تو اکثر لوگ حمل ضائع کروا دیتے ہیں۔ہندو اور ہندو مذہب سے متاثرہ لوگ لڑکی کو بوجھ سمجھتے ہیں،
ایک معروف طبّی جریدے ”دی لانسٹ“ نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ بھارت میں چھے سال کی عمر کے لڑکوں کی تعداد کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 7.1 ملین کم ہے۔بھارت میں امیر گھرانوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب میں عدم توازن موجود ہے۔سائنس دانوں کے مطابق 1980 ء اور 2010 ء کے درمیان بارہ ملین لڑکیوں کو ان کی جنس کی وجہ سے اسقاط حمل کے ذریعے مار دیا گیا۔سو بھارتی معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کی شرح میں سخت عدم توازن سامنے آ چکا ہے،
1991 ء میں بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 4.2 ملین کم تھی، 2001 ء میں یہ تعداد مزید کم ہو کر 6 ملین تک رہ گئی جو کہ اب 7.1 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔بھارت میں 1990 ء میں فی عورت بچے کی پیدایش کی اوسط شرح 3.8 تھی جو کہ 2008 ء میں 2.6 رہ گئی ہے۔ماہرین نے آئندہ دس سالوں کے دوران بھارت میں لاکھوں کی تعداد میں لڑکیوں کی پیدایش میں کمی کی پیش گوئی کر دی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق 2030 ء تک لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدایش 68 لاکھ کم رہے گی۔
یہ نظامِ قدرت ہے کہ ساری دنیا میں لڑکے اور لڑکیوں کی شرحِ پیدایش برابر ہے مگر کچھ ملکوں اور معاشروں میں بیٹی کی پیدایش پر ناگواری محسوس کر کے انھیں قبل از پیدایش قتل کرنے سے یہ توازن بگڑ چکا ہے، جن میں بھارت سرِفہرست ہے۔
چِین پر بھی طائرانہ نظر ڈالیں تو اقوامِ متحدہ کے مطابق 2018 ء میں 15 سے 29 سال کے افراد میں ہر سو عورتوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد 280 تھی، جو کہ تقریباً تین ایک کا تناسب بنتا ہے۔2026 ء تک 15 سے 29 سال کے افراد میں مَردوں اور عورتوں کا یہ تناسب تین سے بھی زیادہ ہو جائے گا اور پھر کئی دہائیوں تک یہ تناسب متوازن نہیں ہو سکے گا۔اب لمحہ ء فکریہ یہ ہے کہ لڑکوں کو جب شادی کے لیے لڑکیاں نہیں ملیں گی تو وہ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے ایسے ملکوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو گا جن سے وہ ممالک اور معاشرے اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو جائیں گے۔ اگر لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہو تو یہ کوئی اتنا گھمبیر مسئلہ نہیں کیوں کہ مرد دو، تین اور چار شادیاں کر کے اس عدم توازن پر قابو پا سکتے ہیں لیکن اگر لڑکیوں کی تعداد کم ہو گی تو اس کے خطرناک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
چِین کی صورتِ حال یہ ہے غیر شادی شدہ مردوں کی تعداد چار کروڑ تک جا پہنچی ہے۔چِین میں عورتوں کی کمی کی دو بنیادی وجوہ میں سے ایک تو شرح پیدایش سے متعلق سخت قوانین اور دوم بیٹے کی خواہش ہے۔چِین میں تیسرے بچے کی پیدایش پر پابندی ہے اور ایسا کرنے والوں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر پہلی مرتبہ بیٹی پیدا ہو جائے تو دوسری بار کسی طور بیٹی پیدا نہیں کرنے دی جاتی جب کہ پہلی بار بیٹا پیدا ہو جائے تو دوسری بار بیٹے کی پیدایش میں رکاوٹیں نہیں ڈالی جاتیں جس سے چِین میں بھی یہ توازن بگڑ چکا ہے۔عورت کے شکم میں حمل ضائع کروانے والے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر ان سب نے عورتوں کے پیٹ ہی سے جنم لیا ہے اور اگر عورت نہیں ہو گی تو مرد کہاں سے آئیں گے؟
بھارت میں جنسی جرائم کی دیگر وجوہ کے ساتھ شکمِ مادر میں لڑکیوں کو قتل کر دینا بھی سرِفہرست ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔جنسی زیادتی کے معاملے میں وہی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش جو لڑکیوں کی کمی کا شکار ہے، کئی سالوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات میں خبروں میں سرِفہرست ہے۔
بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے کا ایک سبب وہ فضول رسوم ورواج ہیں جو بیٹی کی شادی کے ساتھ نتّھی کر دیے گئے ہیں۔سونے چاندی کے زیورات اور جہیز سے لدے ٹرکوں کو بیٹی کے لیے جزوِلاینفک بنا دینے کا نتیجہ، آج اسلام پر عمل نہ کرنے والے لوگ نہ صرف خود بھی بھگت رہے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی سوہانِ روح بن چکے ہیں۔منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے۔
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لیے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
نفرت اور اسقاط، شکم مادر میں پرورش پانے والی لڑکی کا نہیں بلکہ ان رسوم و رواج کا ہونا چاہیے جو خواہ مخواہ انسانی دماغ میں فاسد مادوں اور خود رَو جھاڑیوں کی طرح نشوونما پا کر کسی عفریت کا روپ دھار چکے ہیں۔نفیسہ سلطانہ انا کا شعر ہے۔
شبِ ظلمت نہیں حوا کی بیٹی
اجالا ہوں سحر کا، نور ہوں میں
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )