سوال

ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، ایک بیوی کو اپنی زندگی میں اٹھارہ ایکڑ سے زائد زمین دی، جبکہ اپنی دوسری بیوی کو نہیں دی، پھر جس کو اس نے محروم رکھا وہ شوہر کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی۔ ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس میں تین مسائل ہیں:

  • اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں ہیں، تو ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرنا بہت ضروری ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

“مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ”. [سنن أبي داود:2134]

’’جس کی دوبیویاں ہوں اور اس نے دونوں کے درمیان عدل و انصاف نہ کیا، تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا، کہ اس کا آدھا حصہ بےکار ہوگا‘‘۔

اسی طرح قرآنِ کریم میں بیویوں کے درمیان عدل کو بیان کیا گیا ہے ،ارشادِ باری تعالی ہے:

“فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً”.[النساء:3]

’اگرتم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے تو ایک ہی کافی ہے‘۔

بیویوں میں ان کی ضروریات کے لحاظ سے نان و نفقہ اور رہائشی سہولیات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے، اسی طرح اگر کسی کے بچے زیادہ ہیں تو وہاں پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے،  یہاں عدل یہ ہے کہ اس کو اخراجات بھی اس حساب سے زیادہ دیے جائیں، لیکن اگر کسی بیوی کا ایک بچہ ہے یا بچے نہیں ہیں تو ضروری نہیں ہے، کہ اس کو بھی اتنے ہی پیسے دے جو بچوں والی کو دیتا ہے۔ [دیکھیں: المغني لابن قدامة: 7 / 232]

یہ تو تھا بنیادی ضروریات و سہولیات کا معاملہ، جہاں تک تعلق ہے تحفے تحائف کا تو اس میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ سب کو برابر برابر دیا جائے، یہ درست نہیں کہ ایک بیوی کو زمین دے دی جائے، جبکہ دوسری کو محروم رکھا جائے، جیسا کہ صورتِ مسؤلہ میں کیا گیا ہے۔

لہذا یہاں عدل و انصاف کے تقاضوں کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہیں، اس کی ساری جائیداد کو از سر نو اکٹھا کرکے دونوں بیویوں اور ان کے اولاد میں برابر برابر تقسیم کیا جائے۔ یعنی جتنا ایک بیوی اور اس کی اولاد کو تحفہ دیا گیا ہے، اتنا ہی دوسری بیوی اور اس کی اولاد کو بھی دیا جائے۔

  • اگر کوئی شخص ورثا میں سے کسی کو محروم کرنے کی وصیت کرکے جاتا ہے، تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اگر کوئی مرد یا عورت غلط تقسیم یا وصیت کر کے فوت ہو، تو اس کے ورثا کو چاہیے کہ فوت شدہ کو گناہ اور متوقع عذابِ الہی سے بچانے کے لئے، شرعی قانونِ وراثت کے مطابق ہی تقسیم کریں، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}[البقرة: 182]

’جو شخص وصیت کرنے والے کی جانب داری، یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے، پس ان میں آپس میں اصلاح کر دے ،تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ تعالی نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘۔

  • کسی کی وراثت کا حقدار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جب میت فوت ہو، تو وہ وارث اس وقت زندہ ہو، اگر کوئی رشتہ دار، کسی رشتے دار کی زندگی میں ہی فوت ہوجاتا ہے، تو وہ اس کی وراثت کا حقدار نہیں ہوگا۔ صورتِ مسؤلہ میں چونکہ ایک بیوی خاوند کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی ہے، لہذا اس کا وراثت میں حق نہیں ہے۔ البتہ اس بیوی سے جو اولاد زندہ ہے، وہ اپنے باپ کی وراثت کے حقدار ہیں۔

لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کے فوت ہونے والی بیوی اگرچہ وارثت سے محروم ہوگی، البتہ اس کی زندگی میں اس کی سوتن کو جو تحفے تحائف دیے گئے ہیں، وہ اس کا بھی حق تھا، جو اس کی وفات کے بعد بطور وراثت اب اس کی اولاد کو ملیں گے۔ واللہ اعلم۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ