سوال (982)

ایک خاتون نکاح کرنا چاہتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ والد اپنی فیملی سے لا تعلق رہا ہے ، لڑکی کا بھائی ہے اور اس کی حالت بھی والد جیسی ہے ، لڑکی کا خالہ زاد بھائی ان کی والدہ کا لے پالک ہے، اور اب عاقل وبالغ ہے۔
کیا وہ اس لڑکی کا ولی بن سکتا ہے؟

جواب

ایسی تفصیل پہلے ہی ذکر کردینی چاہیے۔ تاہم باپ کی موجودگی میں کوئی دوسرا ولی نہیں بن سکتا ہے ۔ اگر لڑکی کو اعتراض ہے تو عدالت سے رجوع کرے ۔

“السلطان ولی من لا ولی له”

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اذن تو چاہیے ہوتا ہے ، والد یا بھائی اذن تو دے سکتے ہیں، کسی کو نامزد کرکے اس کو اجازت دے دیں خود شریک نہ ہوں ، اگر بہت زیادہ مسئلہ ہے تو خالہ زاد تو ولی نہیں بن سکتا ہے ، کسی اور قریب ولی کو دیکھ لیں ، ورنہ عدالت کی طرف رجوع کریں ، حدیث یہی کہتی ہے کہ جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم وقت ہوتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ولی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ راشد ہو ، وہ لڑکی کے جائز مفادات کا تحفظ کرے، ورنہ اس کی ولایت ساقط ہے ۔ اس صورت میں عصبات میں سے کسی مرد رشتے دار کو ولی بنایا جائے ، اگر کوئی اس پر تیار نہ ہو تو حاکم ولی ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

ایسی صورت میں والد اور بھائی کی بات سنے یا انہیں ملے بغیر یک طرفہ ولایت کے ساقط کا فتوی شاید درست نہیں ہوتا ہے ۔ کتنی ہی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ والد اور بھائی کی بات کسی وجہ سے درست ہوتی ہے اور عورتیں جان بوجھ کر انہیں بائی پاس کرنے کے چکر میں ہوتی ہیں ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

یہ تو بدیہی امر ہے کہ ولی کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے گی ۔ جواب میں اس کے عدم ذکر کا مطلب اس امر کا انکار نہیں تھا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ