سوال (936)

ایک سوال ہے کہ جو لے پالک لڑکا ہے ، اگر اس کو اپنا بیٹا نہیں کہہ سکتے ہیں اور اس کو اپنا بیٹا نہیں لکھوا سکتے تو پھر اس کو پالنے کا کیا فائدہ ہے ، جبکہ لیا بیٹا بنانے کے لیے تھا اور اگر کبھی اس کے ساتھ کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کے دل میں آئے گا کہ میں ان کا حقیقی بیٹا نہیں ہوں اس لیے اس طرح کرتے ہیں ، جبکہ اگر اس کو نہ بتایا جائے کہ یہ تمہارے حقیقی والدین نہیں ہیں تو بچے کے ذہن میں اس طرح کے اشکال بھی نہیں آئیں گے ؟

جواب

قرآنی حکم ہے کہ بچوں کو ان کے حقیقی والدین کی نسبت سے پکارو ۔ اس معاملے میں اپنی ذاتی پسند کی بجائے شرعی حکم کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہلانے میں بہت سی قباحتیں ہیں۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

لے پالک اولاد صرف ایک جذبات کی تسکین کے لیے ہوتی ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ” [سورة الاحزاب : 05]

«انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے دوست ہیں»
یہ صرف فطری اور جذباتی تشنگی ہوتی ہے ، اس کو مٹانے کا ذریعہ ہے ، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ، اس لیے اس بچے کو اپنا نام نہیں دیا جا سکتا ہے ۔

فضیلۃ العالم عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

متفق ، بہرحال یوں اولاد لے کر پالنے میں اور بھی مصالح ہو سکتے ہیں البتہ اسے ان کے اصل باپوں کی طرف منسوب کیا جائے گا ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ