پیسہ یا غلہ کے بدلے کسی کو کھیتی کی زمین دینے کا حکم
اگر کوئی انسان اپنا کھیت کچھ پیسہ یا کچھ غلہ کے عوض کسی اور کو دیتا ہے, تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اس باب میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں, جو کہ کتب حدیث کے مختلف ابواب میں پھیلی ہوئی ہیں, کچھ حدیثیں آپ کو (باب المساقاۃ), کچھ (باب المزارعۃ) تو کچھ (باب کراء الأرض) یا (باب المؤاجرۃ) میں ملیں گی۔
کئی مقام پر تو یہ احادیث بظاہر متعارض بھی نظر آتی ہیں, اسی لیے مسئلے کے صحیح حکم تک پہونچنے میں کئی لوگوں کو دشواری ہوتی ہے۔
چونکہ موجودہ وقت میں یہ مسئلہ کثرت کے ساتھ پیش آنے والے مسائل میں سے ہے, خاص طور سے دیہی علاقوں میں, جہاں کے لوگ زراعت پیشہ ہیں, اس لیے انتہائی مختصر اور ممکن حد تک آسان انداز میں مسئلے کو محرر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے, وباللہ التوفیق۔
جب کوئی انسان اپنی کھیتی کسی اور کے حوالے کرتا ہے تو اس کی دو شکلیں ہوتی ہیں:
1. یا تو من باب الاحسان دیتا ہے جس کو کہ فقہاء کی زبان میں (منحۃ) کہتے ہیں, دینے والے کا مقصد خالص احسان کرنا ہوتا ہے, نہ کہ کوئی مادی فائدہ۔ وہ کھیتی کرنے والے سے کسی عوض کا نہ تو مطالبہ کرتا ہے, نہ اس کی امید کرتا ہے, بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میری زمین سے کھیتی کرنے والا فائدہ اٹھائے۔ ایسی صورت میں زمین میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مکمل کھیتی کرنے والے کا ہوگا۔
اس شکل کے جواز میں نہ تو کوئی اختلاف ہے نہ ہی کوئی پیچیدگی۔
یہی شکل اس حدیث میں بیان کی گئی ہے:
عن ابْنَ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَأَنْ يَمْنَحَ الرَّجُلُ أَخَاهُ أَرْضَهُ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرْجًا مَعْلُومًا» صحیح مسلم.
2. دوسری شکل یہ ہے کہ زمیں دینے والے کا مقصد اس سے مادی فائدہ حاصل کرنا ہو۔
اصل اشکال اسی دوسری شکل میں ہے, اور اسی میں ا ختلاف بھی ہے۔
مسئلے کو زیادہ آسان اور بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ایک اصولی بات کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ:
دو انسانوں کے درمیان ہونے والے مالی معاملات کی بہت ساری قسمیں ہیں, انہیں اقسام میں سے دو قسمیں ہیں:
1. عقد المشارکۃ
2. عقد المؤاجرۃ
المشارکۃ کو ہم اپنی زبان میں (شراکت داری) یا (پارٹنر شپ) وغیرہ نام سے جانتے ہیں۔
اور المؤاجرۃ کو اجرت, رینٹ, یا کرایہ داری وغیرہ کہا جاتا ہے۔
دونوں کے درمیان کچھ فروق ہیں, جن میں سے:
(1) پہلا فرق یہ ہے کہ: عقد المشارکۃ (شراکت داری) میں دونوں ہی شرکاء نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوں گے, کوئی ایسی شکل جائز نہیں ہوگی جس میں ایک کا فائدہ اور دوسرے کا نقصان ہو, فائدہ ہوا تو بھی دونوں کا, اور نقصان ہوا تو بھی دونوں کا۔ اسی کو فقہاء (مشارکۃ فی المغنم والمغرم) کہتے ہیں, اگر ایسا نہ ہوا تو یہ جوا (قمار ومیسر) میں داخل ہو جائے گا۔
جبکہ عقد المؤاجرۃ (کرایہ داری) میں ایک فریق کو دوسرے فریق کے نفع نقصان سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے, ہر فریق پر اتنا ہی واجب ہوتا ہے جس پر اتفاق ہوا ہے, سامان دیا, کرایہ لیا, بات ختم, اب سامنے والا اس سامان سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں, کتنا فائدہ اٹھاتا ہے, اس سے دوسرے فریق کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔
(2) دوسرا فرق یہ ہے کہ: عقد المؤاجرۃ میں اجرت کی مقدار کا فکس ہونا ضروری ہے, اگر ایسا نہیں ہے تو یہ عقد جائز نہیں, جبکہ عقد المشارکۃ میں شراکت داری کے نتیجے میں آنے والے فائدے میں ہرشریک کا حصہ پرسینٹ میں معلوم ہونا چاہئے, نہ کہ فکس مقدار میں, اگر مقدار فکس کردی جائے تو یہ شراکت داری جائز نہیں ہے۔
(3) تیسرا فرق یہ ہے کہ: عقد المؤاجرۃ میں ایک فریق کا مقصد اجرت (کرایہ), اور دوسرے فریق کا مقصد اجرت پر لیا گیا سامان ہوتا ہے, جبکہ عقد المشارکۃ میں فریقین کا مقصد اس شراکت داری سے آنے والا فائدہ ہوتا ہے۔
جب کوئی انسان اپنا کھیت کسی اور کو فائدے کی غرض سے دیتا ہے, تو کبھی عقد المؤاجرۃ (کرایہ) پر, اور کبھی عقد المشارکۃ (شراکت داری) پر دیتا ہے, اور چونکہ دونوں عقود کے احکام میں فرق ہے, اسی وجہ سے بعض حدیثوں میں اپنی زمین کسی اور کو دینے سے منع کیا گیا ہے, اور بعض میں اجازت دی گئی ہے, جن لوگوں نے ان دونوں قسموں کی حقیقت اور ان کے شروط واحکام نیز ان کے درمیان پائے جانے والے فروق کو ملحوظ نہیں رکھا ان سے مغالطہ ہوا, اور انہوں نے زمین کو مطلقا کرائے پر دینے سے منع کر دیا, حالانکہ اگر کسی کو فقہ المعاملات کے اصولوں کا علم ہے, اور وہ ان تمام حدیثوں کو اکٹھا کرکے ان اصولوں کو تطبیق دے تو خلاصہ کچھ یوں ہو گا:
* اپنی زمین کسی کو کرائے پر دینا جائز ہے, کرایہ چاہے پیسے کی شکل میں ہو, یا غلے کی شکل میں۔ البتہ کرایہ اگر غلے کی شکل میں ہے تو یہ شرط لگانا جائز نہیں کہ غلہ اسی زمین کا ہو۔
* اپنی زمین میں کسی کے ساتھ شراکت داری کرنا جائز ہے, بایں طور کہ ایک آدمی کی زمین, اور دوسرے کی محنت ہو, غلہ دونوں کے درمیان تقسیم کیا جائے, بشرطیکہ:
1. زمین کی شراکت داری میں دونوں شرکاء کا حصہ پرسینٹ میں ہو, نہ کہ فکس۔
2. ایک شریک اپنے لیے زمین کے کسی خاص حصے کا غلہ فکس نہ کرے۔
3. ایک شریک غلے کی ایک خاص مقدار اپنے لیے فکس نہ کرے۔
* اگر ان تینوں شرطوں میں سے کسی شرط کی مخالفت ہوتی ہے تو یہ شراکت داری کے اصولوں کے خلاف ہے, اور انہیں مخالفات کی وجہ سے بعض حدیثوں میں زمین کو کرائے پر دینے سے منع کیا گیا ہے۔
کرایہ یا شراکت کی بنیاد پر اپنے کھیت کو کسی اور کے حوالے کرنے کی پانچ صورتیں بن سکتی ہیں, جن میں دو عقد المؤاجرۃ (کرایہ) اور تین عقد المشارکۃ (شراکت داری ہیں), پہلی تین صورتیں جائز اور دو صورتیں نا جائز ہیں۔
جن احادیث میں زمین کو کرایہ یا مزارعۃ پر دینے کی اجازت دی گئی ہے ان سے مراد یہی تینوں صورتیں ہیں, جن حدیثوں میں زمین کو کرایہ یا مزارعۃ پر دینے سے منع کیا گیا ہے ان سے مراد یہی دونوں صورتیں ہیں, تفصیل اس طرح ہے:
پہلی صورت: کوئی اپنا کھیت کسی کو ایک متعینہ مدت تک کے لیے اس طرح دے رہا ہے کہ اس کے بدلے میں مجھے پچاس ہزار روپیہ (مثلا) چاہئے, تو یہ جائز ہے, کیوں کہ یہ (عقد المؤاجرۃ) ہے۔ اورپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ عقد المؤاجرۃ میں اجرت کا فکس ہونا ضروری ہے, اور فریقین کا ایک دوسرے کے نفع نقصان سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے, اب اگر زمین کو کرایہ پر لینے والا چاہے اس پر کھیتی کرکے اس سے فائدہ اٹھائے, یا اسے یونہی چھوڑ رکھے, یا کھیتی کرنے کے باوجود بھی اس میں غلہ پیدا نہ ہو, کوئی فرق نہیں پڑتا ہے, کیوں کہ اجرت کا یہی اصول ہے۔
اس کی بعض دلیلیں یہ ہیں:
* عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَعْقِلٍ، فَسَأَلْنَاهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ، فَقَالَ: زَعَمَ ثَابِتٌ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ، وَأَمَرَ بِالْمُؤَاجَرَةِ، وَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهَا» صحیح مسلم
* عن حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلِكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ، فَلَا بَأْسَ بِهِ» صحیح مسلم
* عَنْ حَنْظَلَةَ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، يَقُولُ: كُنَّا أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ حَقْلًا، قَالَ: «كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ عَلَى أَنَّ لَنَا هَذِهِ، وَلَهُمْ هَذِهِ، فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ، وَلَمْ تُخْرِجْ هَذِهِ، فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، وَأَمَّا الْوَرِقُ فَلَمْ يَنْهَنَا» صحیح مسلم
* عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّايَ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُكْرُونَ الأَرْضَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يَنْبُتُ عَلَى الأَرْبِعَاءِ أَوْ شَيْءٍ يَسْتَثْنِيهِ صَاحِبُ الأَرْضِ «فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ»، فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: فَكَيْفَ هِيَ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: «لَيْسَ بِهَا بَأْسٌ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ»، وَقَالَ اللَّيْثُ: «وَكَانَ الَّذِي نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ مَا لَوْ نَظَرَ فِيهِ ذَوُو الفَهْمِ بِالحَلاَلِ وَالحَرَامِ، لَمْ يُجِيزُوهُ لِمَا فِيهِ مِنَ المُخَاطَرَةِ» صحیح البخاری
دوسری صورت: کوئی اپنا کھیت کسی کو ایک متعینہ مدت تک کے لیے دے, اور اس سے کہے کہ مجھے اس کا کرایہ سو کلو گیہوں چاہئے, وہ گیہوں آپ کہاں سے لاکر دیں گے, مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صورت بھی عقد المؤاجرۃ کی ہے, اور پہلی صورت ہی کی طرح جائز ہے, دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی صورت میں اجرت پیسہ تھا, اور یہاں اجرت غلہ ہے۔
اور اس صورت کی دلیلیں بھی وہی ہیں جو پہلی صورت کی۔
تیسری صورت: کوئی اپنا کھیت کسی کو کھیتی کرنے کے لیے دے, اس شرط پر کہ اس میں جو کچھ بھی پیدا ہوگا, اس کا پچاس پرسینٹ میرا, پچاس پرسینٹ آپ کا۔ (یا جتنے پرسینٹ پر دونوں کا اتفاق ہو جائے)۔ یہ عقد المشارکۃ ہے, ایک آدمی کا کھیت, دوسرے کی محنت, اور نفع دونوں کے درمیان تقسیم کیا جارہا ہے, نفع فکس بھی نہیں ہے, بلکہ کم زیادہ جو بھی ہوگا دونوں اس میں شریک ہوں گے۔ اس لیے یہ جائز ہے۔
اس کی سب سے واضح دلیل یہ حدیث ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ» صحیح مسلم
چوتھی صورت: کوئی اپنا کھیت کسی کو کھیتی کرنے کے لیے دے, اس شرط پر کہ اس کھیت میں جو غلہ پیدا ہوگا اس میں سے سو کلو میرا, باقی آپ کا۔
یہ بھی عقد المشارکۃ ہے, کیوں کہ ایک کی زمین, دوسرے کی محنت, فائدہ دونوں کے درمیان تقسیم۔
لیکن یہ جائز نہیں ہے, کیوں کہ عقد المشارکۃ میں فائدہ فکس ہونے سے جوا اور قمار کی شکل بن جاتی ہے, ممکن ہے اس زمین میں سو کلو ہی غلہ پیدا ہو, یا اس سے بھی کم ہو, ایسی صورت میں کھیتی کرنے والے کو کچھ بھی نہیں ملے گا, جب کہ عقد مشارکۃ میں دونوں کا شریک ہونا ضروری ہے۔
پانچویں صورت: کوئی اپنا کھیت کسی کو کھیتی کرنے کے لیے دے, اور یہ شرط رکھے کہ اس کھیت کے فلاں حصے میں جو غلہ پیدا ہوگا وہ میرا, باقی آپ کا۔
یہ بھی عقد مشارکۃ ہی ہے, اور یہ صورت بھی جائز نہیں ہے, سبب وہی ہے جو چوتھی صورت میں بیان کیا جا چکا۔
چوتھی اور پانچویں صورت کے عدم جواز کی بعض دلیلیں یہ ہیں:
* عن ثَابِت بْن الضَّحَّاكِ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ» صحیح مسلم
* عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ. صحیح مسلم
* عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤْخَذَ لِلْأَرْضِ أَجْرٌ، أَوْ حَظٌّ» صحیح مسلم
* عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانُوا يَزْرَعُونَهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ» صحیح البخاری
* عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ المَزَارِعِ» فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى رَافِعٍ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ المَزَارِعِ» فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «قَدْ عَلِمْتَ أَنَّا كُنَّا نُكْرِي مَزَارِعَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَا عَلَى الأَرْبِعَاءِ، وَبِشَيْءٍ مِنَ التِّبْنِ» البخاری
کراء الأرض یا مزارعۃ سے ممانعت کی جو حدیثیں ہیں, ان سے مراد یہی دونوں صورتیں ہیں, نہ کہ مطلق طور سے زمین کو کرائے پر یا مشارکت پر دینا منع ہے, جیسا کہ اس کی وضاحت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کر دی ہے۔
✍ دکتور محمد نسيم عبد الجليل مدنی
(استاذ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں )