سوال

اسمگل شدہ جائز مال کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلا موبائل لیپ ٹاپ و دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء؟
نیز اسمگلنگ بنفسہ کرنا شرعی تناظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جیسا کہ کسی مال کی لاٹ وغیرہ خریدنا،  پیٹرول کا کام، سرکاری ٹیکس سے بچتے ہوئے اشیاء خوردونوش و دیگر سستے داموں بازار تک پہنچانا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ نام ہی مذموم و مکروہ ہےاور یہ کام شرعا بھی حرام ہے اور قانونا بھی ممنوع ہے۔

اس بات کو درج ذیل نکات میں سمجھا جاسکتا ہے:

1۔ اس کے اندر حکومت اور اس کے وضع کردہ قانونِ تجارت کی مخالفت ہے، حالانکہ حکمران کی جائز امور میں اطاعت ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ﴾ [النساء: 59]

’اے اہلِ ایمان اللہ ، اس کے رسول اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو‘۔

اس کے علاوہ دیگر آیات و احادیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اولوا الامر یعنی   ذمہ داران، حکمران اور انتظامیہ اگر معاشرے کی مصلحت  اور کارِ حکومت کی تنظیم و ترتیب کی خاطر کوئی جائز قانون بنائے تو اسے ماننا ضروری ہے اور اس کی مخالفت درست نہیں ہے۔ اسمگلنگ کے اندر اس شرعی حکم کی مخالفت ہوتی ہے۔

2۔ اس میں ملک و قوم ہر دو کا نقصان ہے، کیونکہ کسی بھی ملک اور اس کے باشندوں کی معیشت کا ایک اہم ذریعہ درآمدات و برآمدات ہوتی ہیں، اور اس کا تبھی فائدہ ہے جب اس کو قانونی طریقے سے سر انجام دیا جائے، اگر چوری چھپے، دھوکے فراڈ سے امپورٹ، ایکسپورٹ کا سلسلہ شروع ہوجائے، تو چند افراد کے فائدے کی خاطر پورے ملک اور قوم کو نقصان اٹھانے پڑے گا۔ ارشاد نبوی ہے:

«لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ»[ صحيح سنن ابن ماجة:1909]

’کسی کو، یا آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے ‘۔

3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تلقی الرکبان سے منع کیا گیا تھا۔ ارشاد نبوی ہے:

“لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ وَلَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ”. [صحیح بخاری:2158 ،صحیح مسلم:1521]

’غلہ لے کر آنے والے قافلے سے ملنے کے لیے پیش قدمی نہ کرو اور کوئی مقامی آدمی کسی بیرونی شخص کے لیے خریدوفروخت نہ کرے‘۔

خرید و فروخت کی  اس قسم کی صورتوں کی ممانعت میں ایک بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان میں مارکیٹ سے باہر باہر ہی بیع و شراء کرلی جاتی تھی۔ اسمگلنگ میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔

لہذا اسمگل شدہ سامان کی خرید و فروخت جائز نہیں اور نہ ہی اس کام کی کمائی حلال ہے اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ تعاون کرنا بھی درست نہیں۔

اور یہ سارا کچھ اس صورت میں ہے کہ اسمگل شدہ سامان جائز اور حلال ہو اور اگر  اس چيز کی خرید و فروخت ہی ناجائز اور  حرام ہو جیسا کہ شراب وغیرہ تو اس کی اسمگلنگ تو بالاولی حرام ہوگی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ