سوال (1013)

کسی خاتون نے 30 سال پہلے اپنا حمل گرا دیا abortion کر کے۔حمل 3 یا 4 ماہ کا تھا ان کو اب صحیح سے یاد نہیں۔ان پر اگر کفارہ ہے تو کیا ہوگا؟ یہ کام صرف ساس کے ڈر کی وجہ سے کروایا تھا کیونکہ وہ کام کے معاملے میں سخت تھی۔

جواب

دو ماہ کے متواتر روزے رکھ لے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

اس کی سمجھ نہیں آئی دو ماہ کے متواتر روزے کیوں ؟

فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ

اس آیت کے آخر سے پڑھ لیں!

وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ يَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَــئًا‌ ۚ وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَــئًا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّصَّدَّقُوۡا‌ ؕ فَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمۡ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ‌ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ وَ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ‌ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ تَوۡبَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا [سورة النساء : 92]

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

لایقاد الوالد بولدہ میں ماں شامل نہیں ؟

فضیلۃ الباحث اسداللہ حفظہ اللہ

نہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

دیکھ لیں تین یا چار ماہ کا شک ہی ہے تو ذرا نرمی کا پہلو اختیار کیا جائے ، دوسرا یہ کہ جہالت کا عذر بھی دیکھ لیا جائے ۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ

جہالت کس چیز کی ہے ؟

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

شاید اسے اس کے اندر روح کی موجودگی کا علم نہ ہو اور یہ نہ علم ہو کہ وہ ایک جان کو مار رہی ہے۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ

ہاں اگر روزوں کی استطاعت نہ ہو

“لیس عليها شیء سوی الاستغفار”

تو اس پر سوائے توبہ و استغفار کے کوئی چیز نہیں

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شک کا بھی فائدہ ہو سکتا ہے

فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ

بہرحال کفارہ ہو جائے تو بہتر ہے ، ورنہ پھر بڑی آزمائشیں ہوتی ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

روح پھونکے جانے کے بعد اگر حمل گرایا ہے، تو جنین کی دیت غلام ہے ، اگر غلام میسر نہیں تو پھر پانچ اونٹ ہیں ، باقی کفارہ تو قتل خطا میں ہوتا ہے ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

اسقاط حمل کا مسئلہ اختلافی ہے۔ دیت وغیرہ تب ہے جب کوئی اور شخص ضرب وغیرہ کے ذریعے سے اسقاط کا باعث بنے۔ صورت مسئولہ کے مطابق یہی رائے بہتر محسوس ہوئی ہے۔ ایک تو جنین کی مدت مشکوک ہے، دوسرے ساس کی طرف سے دباؤ کا بھی ذکر ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

“إذا كان إسقاط الجنين المذكور بعد تمام أربعة أشهر وجب في إسقاطه غرة عبد أو أمة ، والكفارة وهي : عتق رقبة مؤمنة ، فإن لم تستطع فإنها تصوم شهرين متتابعين ، وتستغفر الله وتتوب إليه من هذا الذنب” انتهى .
[فتاوى اللجنة الدائمة : 21/316]
وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : من شربت دواءً عمداً لإسقاط جنين فسقط لثلاثة أشهر فماذا عليها ؟
فأجاب : “ليس عليها دية ولا كفارة ، لأنه لم تنفخ فيه الروح . أما إن أتمَّ أربعة أشهر ، ففعلته عمداً ، فعليها الدية : غرة ، والكفارة : صيام شهرين متتابعين . والغرة : عبد أو أمة ، قيمة كل منهما خمس من الإبل . ومن لم يستطع الصيام ، فالصحيح أن ليس عليه إطعام لأن الله لم يذكره في الآية” انتهى .
[ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين ص : 126مسألة : 533 ]

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

شیخ قتل عمد میں کفارے کی دلیل کیا ہے؟

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

شاید شوافع کفارہ کے قائل ہیں ۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر حفظہ اللہ

جی علماء کفارہ کے قائل تو ہیں پر دلیل کیا ہے؟ عمد کی صورت میں ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

إمام ابن قدامة نے عدم اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے غالبا اسی وجہ سے لجنہ دائمہ اور شیخ عثیمین کے فتاوی میں اس کا ذکر ہے۔ ابھی المغنی کی عبارت بھیجتا ہوں۔

قال ابن قدامة رحمه الله : ” وإذا شربت الحامل دواء , فألقت به جنينا , فعليها غرة , لا ترث منها شيئا , وتعتق رقبة ، ليس في هذه الجملة اختلاف بين أهل العلم نعلمه , إلا ما كان من قول من لم يوجب عتق الرقبة , وذلك لأنها أسقطت الجنين بفعلها وجنايتها , فلزمها ضمانه بالغرة , كما لو جنى عليه غيرها , ولا ترث من الغرة شيئا ; لأن القاتل لا يرث المقتول , وتكون الغرة لسائر ورثته , وعليها عتق رقبة ” [انتهى من “المغني : 8/327]

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

شیخ نے تو خود ہی اختلاف کی طرف اشارہ کر دیا ہے ، اجماع تو غرہ پر نقل کیا ہے نہ کہ کفارہ پر ۔

الا ما كان من قول من لم يوجب عتق الرقبة

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

جی بالکل لیکن انہوں نے اشارہ جس انداز میں کیا ہے وہ اس قول کے (ان کے ہاں) شذوذ پر دلالت کر رہا ہے واللہ أعلم

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

وذهب المالكية إلى عدم وجوب الكفارة للجناية على الجنين سواء ألقي حيا أو ميتا بل هي مستحبة فقط، ووافقهم الحنفية في حالة ما إذا نزل الجنين ميتا.
ووافقهم الظاهرية إن كان الإسقاط قبل أربعة أشهر. واستدلوا جميعا على ذلك: بأن الكفارة عقوبة فيها معنى العبادة شرعت لتكفير الذنب ومحو الجرم الذي اقترفه المذنب بالتقرب إلى الله ﷿، وقد عرفت في النفوس الكاملة بالنص، فلا يقاس عليها الجنين؛ وذلك لأن الجنين نفس من وجه دون وجه، بدليل أنه لا تجب فيه كمال الدية؛ ولأن الكفارة من باب المقادير، والمقادير لا تعرف بالرأي والاجتهاد بل بالتوقيف، ولم يذكر النبي ﷺ في ذلك شيئا حين تحدث في الجناية على الجنين، ولا يجوز تأخير البيان عن وقت الحاجة إليه، مع أن الحال حال الحاجة إلى بيان.”مجلة البحوث الاسلامية”

یعنی مسئلہ مختلف فیہ ہے،والعلم عند اللہ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ عَنْ الْغَرِيفِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ أَتَيْنَا وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ فَقُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا حَدِيثًا لَيْسَ فِيهِ زِيَادَةٌ وَلَا نُقْصَانٌ فَغَضِبَ وَقَالَ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَقْرَأُ وَمُصْحَفُهُ مُعَلَّقٌ فِي بَيْتِهِ فَيَزِيدُ وَيَنْقُصُ قُلْنَا إِنَّمَا أَرَدْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي صَاحِبٍ لَنَا أَوْجَبَ يَعْنِي النَّارَ بِالْقَتْلِ فَقَالَ أَعْتِقُوا عَنْهُ يُعْتِقْ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنْ النَّارِ [سنن أبی داود : 3964]

غریف بن دیلمی کہتے ہیں کہ ہم سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا: ہمیں حدیث بیان کیجئیے جس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو ‘ تو وہ غصے ہو گئے اور کہنے لگے: بلاشبہ تم میں کئی ایسے ہیں جو قرآن کی قرآت کرتے ہیں اور اس میں کمی بیشی کر جاتے ہیں ‘ حالانکہ قرآن اس کے اپنے گھر میں لٹکا ہوا ہوتا ہے؟ ہم نے کہا: ہمارا مقصد ہے کہ ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔انہوں نے کہا: ہم اپنے ایک آدمی کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے جو قتل کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہو چکا تھا ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’اس کی طرف سے غلام آزاد کر دو ‘ اللہ عزوجل اس کے ہر ہر عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو آگ سے آزاد فرما دے گا۔‘‘

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

وجه الاستدلال؟؟

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

ودليل وجوب الكفارة في قتل العمد هو: ما رواه أحمد وأبو داود والنسائي عن واثلة بن الأسقع رضي الله عنه قال: أتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في صاحب لنا قد أوجب (استحق دخول النار لقتله عمدا) فقال: أعتقوا عنه، يعتق الله بكل عضو منه عضوا منه من النار”.
قال الشافعي رحمه الله: “إذا وجبت الكفارة في الخطأ فلأن تجب في العمد أولى”
قول النبي صلى الله عليه وسلم: أعتقوا عنه

فضیلۃ العالم عبدالمنان المدنی حفظہ اللہ

صحیح، یعنی آپ قتل عمد میں کفارہ کے قائل ہیں، آپ نے جنین کے حوالے سے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا حوالہ دیا تھا۔ وہ قتل عمد میں کفارہ کے قائل نہیں (جنین کے علاؤہ)
قتل العمد أعظم من ان يكفر
بہر کیف یہ مسئلہ بھی اختلافی ہے ہمارا رجحان بھی ابن عثیمین رحمہ اللہ کے ترجیح کی طرف ہے، کیونکہ قرآن میں خطا اور عمد کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

ہمارے گروپ کے علماء و باحثین صورت مسئلہ کو زیادہ تر اس کی عمومی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور اس سے متعلقہ مخصوص ضمنی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہر مسئلے کو اس کے مخصوص تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں اسقاط حمل کے زیادہ تر قضایا قتل خطا کے قریب ہوتے ہیں جو بر بنائے جہالت یا جبر انجام دیے جاتے ہیں۔اب صورت مسئولہ سے متعلقہ مخصوص ضمنی حقائق دیکھیے:
وہ خاتون جبر کا شکار تھیں۔
وہ غالباً اس عمل کی سنگینی سے بھی ناواقف تھیں۔
جنین کی مدت کے بارے میں بھی انھیں وثوق نہیں ہے۔
بالفرض وثوق ہو بھی تو کیا انھیں یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ تیس سال بعد اپنے شوہر کو بتا کر اسے اس کی دیت ادا کریں یا اس سے مار کھائیں؟
اگر ان کا شوہر سوال کرے اور دیت کا مطالبہ کرے، تب قضیے کی صورت مختلف ہو گی۔
ایسی صورت جبکہ نہیں ہے تو اس خاتون کو ماسوائے توبہ و استغفار کے اور کیا مشورہ دیا جائے۔
زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اگر دل مطمئن نہیں ہو رہا تو کفارہ ادا کر لیں۔
اگر کوئی عورت قصداً اپنے جنین کا اسقاط کرائے تو بھی اس اقدام کی نوعیت عمومی نہیں ہوگی۔
متعلقہ دلائل عمومی نوعیت کے ہیں جن میں اس مخصوص صورت کا ذکر نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

جنین کا قتل خطاء ہو یا عمدا دیت تو ہے ہی
اور یہ بھی بات یقینی ہے کہ قتل میں جبر اور اکراہ عذر نہیں بنتا ہے اور رہی بات کہ جنین کی عمر کا یقینی علم نہیں تھا تو اس حوالہ سے میں نے کوئی بات نہیں کی میں نے نفخ الروح کی صورت میں بات کی ہے۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ