شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ (شیخ الحديث: جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)کا مختصر تعارف

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ
“لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجب تک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے”

نام ونسب
عبدالمنان بن عبدالحق بن عبدالوارث بن قائم الدین۔ آپ حافظ عبدلمنان نورپوری کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا اصل نام خوشی محمد تھا جسے آپ کے مایہ ناز استاد محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے اپنے استاد محترم شیخ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے نام پر عبدالمنان رکھ دیا۔
پیدائش
آپ قلعہ ديدارسنگھ سے مشرق کی جانب واقع گاؤں نور پور چہل (ضلع گوجرانوالہ) ميں 1945ء کو پيدا ہوئے۔
سات سال کی عمر کو پہنچے تو والدہ وفات پاگئیں۔
ابتدائی تعلیم
والد صاحب نے عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کو “پرائمری سکول” میں داخل کرادیا۔ سکول میں ان کے ایک استاد مولوی غلام رسول تھے جو بچوں کو بڑی توجہ اور محنت سےپڑھاتے تھے۔
نور پور کی جامع مسجد اہل حدیث کے خطیب اور بانی مولانا چراغ دین تھے جن سے حافظ عبدالمنان قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا کرتے تھے۔ پرائمری پاس کرچکے تو مولانا چراغ دین نے ان کے والد عبد الحق سے پوچھا کہ آپ بچے کو ہائی سکول میں داخل کرانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر مولوی چراغ دین نے کہا کہ اگر آپ نہیں پڑھانا چاہتے تو یہ بچہ ہمیں دے دیں۔ اس کی تعلیم کا انتظام ہم کرلیں گے۔ چنانچہ انھوں نے عبدالمنان کو ان کے والد سے لیا اور گوجرانوالہ میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کے مدرسہ محمدیہ میں
داخل کرادیا۔ مولانا چراغ دین نہایت عالی کردار عالم دین تھے۔ انھوں نے والدین کو
ترغیب دلا کربہت سے بچوں کو دینی تعلیم کے حصول کی راہ پر لگایا۔ حافظ عبدالمنان کا شمار بھی انہی خوش بخت بچوں میں ہوتا ہے جنھوں نے مولانا چراغ دین کی کوشش سے تحصیل علم کی۔
جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں اس وقت چھ سال کا نصاب تعلیم تھا جو حافظ صاحب نے مکمل کیا اور پنجاب بورڈ سے عربی فاضل کیا جس کے نتیجہ میں گولڈ میڈلز حاصل کیا
تعطیل کو تفریح نہیں بنایا
○دوره تجوید○
حافظ صاحب ان چھ سالوں سے پانچ سالہ تعطیلات رمضان المبارک میں کوئی نہ کوئی شغل وکام اختیار کیے رکھا۱۳۸۰ھ میں سالانہ تعطیلات رمضان المبارک میں میاں چنوں ایک مسجد میں دورہ تجوید کا اعلان ہوا تو ممدوح تجوید پڑھنے کی خاطر وہاں چلا گئے تو قاری ولی محمد صاحب سے تجوید کی کتاب جمال القرآن پڑھی، کچھ قواعد زبانی سنے، قرآن مجید کی تلاوت کی مشق کی اور حروف تہجی کی صفات پر ایک جدول نقشہ تیار کیا اس کے آخر میں عربی زبان میں ایک توضیحی نوٹ بھی لکھا۔ قاری تاج محمد صاحب عبد الحکیم والے امتحان کے لیے تشریف لائے تو ان کے استاد محترم قاری ولی محمد صاحب نے وہ نقشہ قاری تاج محمد صاحب کو سنایا قاری صاحب بڑے خوش ہوئے اور نقشے کے نیچے انہوں نے ایک تقریظی
نوٹ لکھوایا اور اپنی مہر لگوائی ۔
○دوره تفسیر○
حافظ صاحب ۱۳۸۲ ھ کی سالانہ تعطیلات رمضان المبارک میں حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ کے دورہ تفسیر چوک دالگراں لاہور میں حاضری دی، دورہ
تفسیر کا امتحان پاس کیا اور دورہ تفسیر کی سند محدث روپڑی سے حاصل کی۔ شيخ الحديث والتفسير حافظ ابو الحسن عبد الله بن عبد الكريم محدث بڈھیمالوی رحمہ اللہ
سے جامع مسجد اہل حدیث کورٹ روڈ کراچی میں دورہ تفسیر پڑھی اور سند اجازت حاصل کی۔
○خیاطت○
حافظ صاحب نے ۱۳۷۸ھ کی تعطیلات میں تھوڑا سا خیاطت
(سلائی) کا کام بھی جانتے تھے۔
○خطاطی○
حافظ صاحب نے ۱۳۷۹ھ کی سالانہ تعطیلات میں کتابت ( خطاطی ) مولانا عبد الواحد صاحب بمبانوالوی سے سیکھنا شروع کی ایک دن تختی لکھ رہا تھے مولانا سلفی صاحب نے دیکھ لیا تو پوچھا یہ کتابت کن صاحب سے سیکھتے ہو حافظ صاحب نے کہا استاد محترم! مولانا عبدالواحد صاحب سے، فرمانے لگے مولانا عبدالمجید صاحب نظام
آبادی کا خط ان سے اچھا ہے، میں ان کو کہہ دوں گا چنانچہ انہوں نے ان سے کہہ
دیا توممدوح کتابت سیکھنےکے لیے ان کے پاس جانے لگے۔
حفظ قرآن
حافظ صاحب کے ذہن میں ایک دن خیال آیا کہ میں نے اور تو سب کچھ یاد کرلیا ہے لیکن قرآن جو کہ سب سے اعلی کتاب ہے اس کو حفظ کرنے سے ابھی تک محروم ہوں۔ چنانچہ حافظ صاحب نے حفظ قرآن شروع کردیا رمضان میں چھ ماہ رہتے تھے، پھر رمضان کا چاند طلوع ہوگیا، لیکن ممدوح انیسواں اور بیسواں پارہ حفظ نہ کر سکے، پھر بھی موصوف اپنے گاؤں نور پور نماز تراویح میں قرآن مجید سنانے چلے گئے۔پھر انہوں نے اٹھارہ دنوں میں اٹھارہ پارے نماز تراویح میں سنا دیے، اور جب انیسویں اور بیسویں پارے کی باری آئی تو صبح سے لے کر شام تک یاد کر کے وہ باری باری یہ دونوں پارے بھی سنا دیے، پھر بقیہ دنوں میں مکمل قرآن مجید بھی نماز تراویح میں سنا دیا۔
جن مشائخ کرام سے اخذ فیض کیا
(1) فضیلتہ الشیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ الله،
(2)فضیلتہ الشیخ مولانا عبدالحمید محدث ہزاروی رحمہ اللہ۔
(3) فضیلتہ الشیخ مولانا نذیر احمد طیب رحمہ اللہ،
(4)فضیلتہ الشیخ قاری ولی محمد رحمہ اللہ،
(5)فضیلتہ الشیخ حافظ محمد عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ
(6) فضیلتہ الشیخ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
(7)فضیلتہ الشیخ جمعہ خان ھزاروی رحمہ اللہ،
(8)علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
(9)فضیلتہ الشیخ مولانا غلام رسول گجراتی رحمہ اللہ
(10) مولانا عبدالحمید گجراتی رحمہ اللہ
(11)فضیلتہ الشیخ مولانا عزیز الرحمن رحمہ اللہ
(12) فضیلتہ الشیخ مولانا عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ
(13) فضیلتہ الشیخ مولانا وزیرکشمیری رحمہ اللہ
(14)مولانا،خواجہ عبدالمنان راز رحمہ اللہ۔
(15) مولانا خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ۔
خطابت
شروع میں حافظ صاحب نے اپنے گاؤں نور پور میں خطابت کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔
کچھ عرصہ حافظ صاحب ڈھپئی گاؤں میں بھی خطیب رہے ہیں،
پھر مسجد اقصیٰ میں خطیب رہے، پھر دال بازار والی مسجد میں خطیب رہے،
جب مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ کی جب وفات ہوئی اس وقت مولانا عبداللہ صاحب دال بازار والی مسجد سے خطابت چھوڑکر جامعہ محمدیہ میں خطیب مقرر ہوئے تو انھوں نے اپنی جگہ قاضی مقبول صاحب کو خطیب نامزد کیا، اس وقت دال بازار والی مسجد محکمہ اوقاف کے تحت تھی مولانا عبداللہ صاحب کی تنخواہ بھی محکمہ اوقاف کی طرف سے آتی تھی۔ قاضی مقبول صاحب پھر بعد میں کالج میں پروفیسر لگ گئے اور خطابت چھوڑ دی، حافظ عبداللہ صاحب نے حافظ صاحب کو خطیب نامزد کردیا۔
پھر اپنی رہائش گاہ کے قریب جامع مسجد قدس اہلحدیث سرفراز کالونی میں خطابت اختیار کی۔ جامع مسجد قدس میں نمازوں کی امامت کرواتے، فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کا درس دیتے اور عشاء کی
نماز کے بعد صحیح بخاری کی ایک حدیث کا درس دیتے تھے ، آپ نے مسجد قدس سے خطابت اور تدریس کی اجرت( تنخواہ) نہیں لیتے تھے۔
جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ
حافظ صاحب سے پہلے ڈیڑھ سال مولانا عبد اللہ صاحب خطیب رہے۔جامعہ محمدیہ کی انتظامیہ نے حافظ صاحب کو کہا مولانا عبداللہ صاحب بیمار ہوگئے ہیں اب آپ ان کی جگہ پر مستقل جمعه ارشاد فرمایا کریں، حافظ صاحب فرمانے لگے وہ بڑی جگہ ہے آپ ان کی جگہ پر کسی بڑے عالم کو لائیں، میں تو طالب علم ہوں ۔ لیکن انتظامیہ کہنے لگی حافظ صاحب ہمیں آپ سے بڑا عالم کوئی نظر نہیں آتا آپ ہی اس منبر کو سنبھالیں ۔ لیکن حافظ صاحب نے انکار کردیا اور کہا میں طالب علم ہوں وہاں کسی اور کو لاؤ۔ پھر انتظامیہ نے مولانا عبد اللہ صاحب کے پاس گئے اور انہیں کہا آپ حافظ صاحب کو حکما کہیں کہ وہ جامعہ محمدیہ میں خطبہ جمعہ کی ذمہ داری قبول فرمائیں، تو مولانا عبداللہ صاحب نے حافظ صاحب کو لکھ کر دیا آپ جامعہ محمدیہ میں جمعہ پڑھائیں، یہ تحریر لے کر وہ حافظ صاحب کے پاس آئے اور انہیں مولانا صاحب کی تحریر دکھائی تحریر پڑھ کر حافظ صاحب کہنے لگے اب یہ میرے استاد کا حکم ہے تو میں وہاں جمعہ پڑھاتا ہوں۔ اس طرح حافظ صاحب جامعہ محمد یہ نیائیں چوک کے مستقل خطیب مقرر ہوئے اور اسی منبر سے دار البقا کی طرف رخصت ہوئے۔
آغاز تدریس
1963ء میں چھ سال پڑھنے کے بعد جامعہ محمدیہ سے فارغ ہوئے۔اسی سال عبداللہ صاحب رحمہ اللہ نے مسجد دال بازار میں دارالحدیث “مدینۃ العلم” کے نام سے مدرسہ شروع کیا۔ تو وہاں سے حافظ محمد صاحب رحمہ اللہ کی خدمات حاصل کیں۔ حافظ نور پوری رحمہ اللہ نے حافظ محمد سے استفادہ کے لیے وہاں داخلہ لے لیا۔ مولانا عبداللہ فرماتے ہیں کہ اب آپ بھی یہاں پر پڑھائیں لیکن حافظ عبدالمنان صاحب ہی یہ کہنے لگے کہ میں نے حافظ محمد ہی سے پڑھنا ہے۔ یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہوں ۔ اس پرمولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ پھر آپ ابتدائی کلاسوں کے کچھ اسباق پڑھائیں اور باقی اوقات میں حافظ ہی صاحب سے پڑھ لیا کریں۔ چنانچہ پھر حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ
اسی طرح کیا کرتے۔
حافظ صاحب چار سال اسی طرح پڑھتے اور پڑھاتے رہے۔ چار سال بعد ۱۳۸۶ھ میں مولانا عبداللہ صاحب نے ممدوح کو مستقل استاد مقرر کر دیا۔ اور کہا اب تم سارے اسباق پڑھایا کرو۔
تدریس صحیح بخاری
1971ء میں حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب نے بخاری پڑھانے کا آغاز کیا۔ اس وقت تک آپ کے استاذ شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ طلبہ کو بخاری پڑھا رہے تھے۔ لیکن اب وہ بیماری کی وجہ سے نہیں پڑھا سکتے تھے۔ لہٰذا استاذ نور
پوری صاحب نے طلبہ کو صیح بخاری پڑھانا شروع کی۔ جب جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی ہی یہ صحیح بخاری
پڑھاتےاس طرح آپ نے کوئی چالیس سال کے لگ بھگ تدریس فرمائی جس میں کم و بیش 25 سال صحیح بخاری پڑھانے کا شرف بھی شامل ہے۔ اس طویل عرصے میں تلامذہ کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا۔ ان میں بڑے جید اور
نامور علماے کرام شامل ہیں
تلامذہ
(1)شیخ الحدیث حافظ محمد شریف اللہ(بانی مرکز التربية الاسلامیہ فیصل آباد )
(2)شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان ضیاء حفظہ اللہ(سابقہ:شیخ الحدیث جامعہ ابن تیمیہ لاہور )
(3) مفتی عبد الرحمن عابد حفظہ اللہ( مدرس: الدعوۃ الاسلامیہ مریدکے)
(4)فضیلتہ الشیخ محمد مالک بھنڈر (مدرس: جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)
(5)حافظ خالد مرجالوی صاحب ( فاضل: مركز التربية الاسلامیہ فیصل آباد )
(6)قاری گل ولی خاں صاحب (مدرس جامعہ سلفیہ اسلام آباد)
(7)مولانا محمد طیب صاحب (مدرس جامعہ شمس الہدی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ )
(8) فضیلتہ الشیخ ڈاکٹر فضل الہی حفظہ اللہ
(اسلام آباد)
(9)حافظ ڈاکٹر عبد الحمید ازهر رحمہ اللہ(اسلام آباد )۔
(10) فضیلتہ الشیخ مولانا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ(مصنف کتب کثیرہ وایڈیٹر ماہنامہ الحدیث حضر وضلع ایک )۔
(11) شیخ الحدیث حافظ محمد امین (شیخ الحدیث دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈاں والا )
(12) فضیلتہ الشیخ مولانا محمد رمضان سلفی (استاذ جامعہ رحمانیہ، لاہور )
(13) فضیلتہ الشیخ حافظ ثناء اللہ زاہدی ( صادق آباد ضلع رحیم یار خاں)۔
(14)فضیلتہ الشیخ محمد خاور رشید بٹ حفظہ اللہ(مدرس دار العلوم محمدیہ لوکو ورکشاپ لاہور )
(15) فضیلتہ الشیخ حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ( مدرس: جامعہ سلفیہ فیصل آباد)
(16)شیخ الحدیث عبدالوحید ساجد حفظہ حفظہ(شیخ الحدیث: جامعہ اسلامیہ سلفیہ مکرم گوجرانوالہ )
تصانیف و تالیفات
آپ کی تالیفات کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)ادائے سنت فجر بعدازفرض قبل از طلوع آفتاب،
(2)”رسالہ ” بیس رکعات تروایح کی شرعی حیثیت ” پر ایک نظر ،
(3)اجادہ القرٰی لاثبات الجمعہ فی القرٰی ،
(4)ارشاد القادری الی نقد فیض الباری ،
(5) احکام و مسائل (سوالات و جواب)
(6)فصل الخطاب فی تفسیر فاتحۃ الکتاب
(7)تعریب اسلام کی دوسری کتاب(ترجمہ)
مضمون ردتقلید(مفتی عبدالرشید کے فتوٰی تقلید کا رد)
(8) تعریب اثبات توحید (ازحافظ گوندلوی) (9)تعریب ختم نبوت(از حافظ گوندلوی)
(10)قربانی کے احکام و مسائل (مقالہ)
(11) ضعیف روایات (مقالہ دوحصے )
(12)زبدہ التفسیر لوجہ التفسیر(عربی)
(13)نکاح میں ولی کی حیثیت (مقالہ)
(14) دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے،
(15)حقیقت تقلید(تحریری گفتگو)،
(16)کیا مرزا غلام قادیانی نبی ہے؟
(17)زبدة المقترح فی علم المصطلح،
(18)سود کی حرمت (مقالہ)
(19) زبدہ المقترح (عربی)
(20)حقیقت ایمان (مقالہ)
(21)تعداد رکعات (مقالہ)
(22)کیا تقلید واجب ہے ؟
(23)بیع التقسیط(عربی)
(24)تحقیق التروایح،
(25)خطبات نورپوری،
(26))آئمہ اربعہ (مقالہ)
(27)مسئلہ رفع الیدین،
(28)تحقیق التراویح،
(29) نخبتہ الاصول ،
(30) نماز مترجم ،
(31)مرآتہ البخاری،
(32)حج و عمرہ،
(33)غنچہ نماز،
(34)داڑھی،
وفات
علم وعرفان کا یہ آفتاب 26 فروری 2012ء کو غروب ہوگیا،
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالٰی شیخ محترم کی جہود طیبہ کو اپنی بارگاہ الہی میں قبول کریں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

●ناشر :حافظ امجد ربانی
●متعلم :جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالستار حماد حفظہ اللہ