مفکر اسلام بطل حریت شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف

مَا رَأَيْت لِلْقَلْبِ أَنْفَعَ مِنْ ذِكْرِ الصَّالِحِينَ.
میں نے دل کے لیے نیک لوگوں کے تذکرے سے
بڑھ کے کوئی چیز نفع مند نہیں دیکھی۔
خاندان کا اجمالی تعارف
حضرت مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمہ اللہ کا خانوادہ برصغیر پاک وہند کے قدیم باشندگان سے تعلق ہے۔ دس بارہ پشت قبل یہ خاندان دولت اسلام سے مالامال ہوا اور (وَجَعَلْنَٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ)کے مصداق اس خاندان کا تعلق راجپوتوں کی جنجوعہ شاخ سے ہے۔ مرورایام کے ساتھ یہ خاندان حوادثات زمانہ کا شکاررہا۔ حکومتوں کے ردوبدل سے متاثر ہوا۔ آخر کار مولانا کے جد امجد مولانا محکم دین موضع ڈھونیکے تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں قیام پذیر ہوئے۔ اس خاندان کی خاص علمی وجاہت تھی۔ فن کتابت وحکمت کی بدولت انھیں خاصی قدر و منزلت کی نظر سےدیکھا جاتا تھا
نام ونسب
محمد اسماعیل بن محمد ابراہیم بن حکیم عبد اللہ بن محکم دین
سلفی صاحب رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت
مولانا محمد ابراہیم کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ آپ نے اپنے استاد گرامی حضرت مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی صاحب سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ رب العزت انھیں اولاد عطا فرمائے ۔ اللہ تعالٰی نے حضرت حافظ صاحب کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور حافظ صاحب کو مولانا محمد ابراہیم کے ہاں ایک فرزند ارجمند کی ولادت کی بشارت دی گئی۔ مولانا سلفی صاحب رحمہ اللہ کی پیدائش 1895ءکو تحصیل وزیر آباد کے قریب ایک گاؤں ڈھو نیکے میں ہوئی۔
سلفی رحمہ اللہ کا آغاز تعلیم
حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی مولانا محمد ابراہیم سے حاصل کی۔ اسی گھریلو ماحول میں ایک عالم باعمل حضرت مولانا عمر الدین وزیر آبادی سے استفادہ کا موقع بھی آیا۔ آپ نے چھوٹی عمر میں صرف ونحو کی ابتدائی کتب پر عبور حاصل کرلیا،صرف ونحو کی ان ابتدائی کتب کے ساتھ آپ نے گلستان، بوستان اور دیگرفارسی کتب بھی پڑھیں۔
باقاعدہ تعلیم کا آغاز
بنیادی تعلیم کے بعد آپ نے حضرت مولانا حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی رحمہ اللہ کی خدمت میں باقاعدہ زانوئے تلمذ طے کیا۔ حضرت حافظ صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ استاد موصوف نے تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرمائی۔
دلّی میں روانگی
وزیر آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ دلی تشریف لے گئے۔ دلّیان دنوں
علوم وفنون کا مرکز تھا۔ یہاں پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور ان کی تحریک
علمی کےگہرے نقوش تھے۔ آپ نےپھانک حبش خان میں مدرسہ نذیریہ میں قیام کیا۔ یہ مدرسہ شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کی یادگار تھا۔وہاں سے مشائخ کرام سے علمی جواہر اکٹھے کیے۔
امرتسر میں آمد
ان دنوں امرتسر میں علوم وفنون کاچرچاتھا۔ اکابرین خاندان غزنویہ علوم و فنون کا منبع بن چکے تھے۔مدرسہ غزنویہ میں آپ نے حضرت مولانا عبدالغفور غزنوی رحمہ رحمہ اللہ اور حضرت مولانا عبد الرحیم غزنوی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔
سیالکوٹ میں آمد
امرتسر سے فراغت کے بعد حضرت سلفی
رحمہ اللہ سیالکوٹ تشریف لے گئے ۔ ان دنوں وہاں حضرت علامہ محمد ابراہیم میر
رحمہ اللہ سیالکوٹی کی علمیت کا چرچاتھا۔ مولانا سلفی نے ان سے بھی کسب فیض کیا۔
اساتذه کرام
(1)حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ
(2)مولوی حکيم محمد عالم امرتسری رحمہ اللہ
(3)مولانا سيد عبد الغفور غزنوی رحمہ اللہ
(4)مولانامفتی محمد حسن امرتسری رحمہ اللہ
(5)مولانا عبدالجبار عمر پوری رحمہ اللہ
(6)مولانا عمر الدين وزيرآبادی رحمہ اللہ
(7)مولانا عبدالستار رحمہ اللہ اور آپ کے والد
(8)مولوی محمد ابراہیم رحمہ اللہ ۔
گوجرانوالہ میں تقرر
آپ 1921ء میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی معیت میں گوجرانوالہ آئے۔آپ نے شہر گوجرانوالہ کو ایسا وطن بنا لیا کہ اس شہر میں منبرومحراب کو الحمد اللہ چار چاند لگا دیے۔
مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب سماحتہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
نے شیخ عبد القادرکی معرفت سے آپ کو مدینہ منورہ بلوا بھیجا، مگر آپ نے گوجرانوالہ میں قیام کو ترجیح دی اور اپنی جگہ حضرت العلام جناب مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کو بھیجوا دیا۔ گوجرانوالہ میں آپ نے مدرسہ محمدیہ کی بنیاد رکھی۔
خطابت
خطابت کے میدان میں آپ ایسے شاہسوار تھے،جن کی نظیر ہماری دینی جماعتوں میں شائد کوئی پیش نہ کر سکے۔ آپ کی تقریر کا اسلوب ابتدا ہی سے یگانہ اور منفرد تھا۔ آخری دور میں توخصوصاً پوری کی پوری تقریر حشو و زوائد سے پاک، نیز بےربط جملوں، غلط تلفظ اور وضعی حکایتوں سے پاک ہوتی تھی ۔ دوران تقریر آواز کا زیروبم، موزوں الفاظ کا انتخاب اور پھر عربی و فارسی اشعار کی ایسی آمد کہ عوام و خواص جھوم جھوم جاتے تھے۔
تصنیف و تالیف
(1)حجيت حديث آنحضرت ﷺ کی سيرت کی روشنی ميں
(2)تحريک آزادي فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تجديدی مساعی
(3)موقف الجماعۃ الاسلاميہ من الحديث النبوی
(4)مسلک اہل حدیث اور تحریکات جدیدہ
(5) اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ [3]
(6)مقامِ حدیث قرآن کی روشنی میں
(7)جماعتِ اسلامی کانظریہ حدیث
(8)حدیث کی تشریعی اہمیت
(9)مشکوۃ المصابيح مترجم
(10)رسولِ اکرم ﷺ کی نماز
(11)جماعت اسلامی کا نظریہ
(12)السنة في ضوء القرآن
(13)مسئلہ حيات النبی ﷺ
(14)شرح المعلقات السبع
(15)امام بخاری کا مسلک
(16)مقالات حدیث [2]
(17)مسئلہ زیارتِ قبور
(18)مجموعہ رسائل
(19)خطبات سلفيہ
(20) نگارشات
تلامذہ
آپ کے شاگردوں میں چند نمایاں نام یہ ہیں
(1)مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ
(2)ابو یحیی امام خان نوشہروی رحمہ اللہ
(3)مولانا خالد گرجاکھی رحمہ اللہ
(4)حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ
(5)حکیم محمود سلفی رحمہ اللہ
(6) مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ
جماعتی سرگرمیاں
قیامِ پاکستان سے پہلے آپ آل انڈیا اہل الحدیث کانفرنس کی مجلسِ عامہ کے رکن تھے، قیامِ پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے جمعیت اہل الحدیث کی بنیاد رکھی تو آپ کو اس کا ناظم مقرر کیا گیا۔ بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ جمعیت اہل الحدیث پاکستان کے امیر منتخب ہوئے۔
وفات
محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کا انتقال 20 فروری 1968ءکو 73 سال کی عمر میں پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں ہوا۔
انا لله وإنا إليه راجعون.
اللهم اغفر له وارفع درجته في المهديين۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:مولانا عبدالرزاق یزدانی حفظہ اللہ