شیخ الحدیث حافظ مفتی عبدالستار حماد حفظہ اللہ(فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد ومدینہ یونیورسٹی) کا مختصر تعارف

أخو العِلْم حَيَّ خَالِدٌ بَعدَ مَوْتِهِ وأَوْصَالُهُ تَحتَ التُرابِ رَميم وذُو الجُهْلِ مِيتُ وَهُوَ مَاشٍ عَلى النَّرى يُظن من الأحياء وهوَ عَدِيمُ۔
“علم سے وابستہ ہرفرد زندہ رہنے والا ہے اور اپنی موت کے بعد بھی وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اگرچہ اس کی ہڈیاں بظاہر مٹی میں فنا ہو جائیں”

حافظ عبدالستار بن مہتاب دین 1952ء کو موضع چک نمبر 129۔ 15، ایل ضلع میاں چنوں میں پیدا ہوئے۔
حصول علم کے لیے سفر
اسی گاؤں میں تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا اسی لیے والد گرامی نے عبدالستار صاحب کو میاں چنوں کے” ایم سی پرائمری” سکول میں داخل کروادیا پرائمری پاس ہوئی تو والد محترم نے بیٹے کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے خواہاں تھے پھر ممدوح کو چک نمبر 7۔8 اے آر میں لے گئے جہاں مولانا علی محمد سعیدی رحمہ اللہ نے “جامعہ سعیدیہ” کے نام سے درسگاہ قائم کی تھی پھر وہ اس درسگاہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے لگے وہاں قاعدہ “ترتیل القرآن” پڑھا قاعدہ جو حافظ یحیی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ کا مرتب کردہ ہے مدرسین میں ان کے اول استاد حافظ عبدالرشید کے اظہر رحمہ اللہ کے بڑے بھائی حافظ عبدالستار تھے قرآن مجید پڑھنے کے بعد درس نظامی کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھی پھر اللہ تعالٰی نے ان کے دل میں حصول علم کا اس قدر شوق پیدا کردیا کہ مدرسے میں سالانہ چھٹیاں ہوئیں تو گھر نہیں گئے، وہاں استاد محترم سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا پھر ڈیڑھ سال میں ہی قرآن مجید کو حفظ کرلیا پھر نماز تراویح میں سنایا،حفظ القرآن کے بعد میں حافظ عبدالستار حماد صاحب خانیوال چلے گئے وہاں “جامعہ سعیدیہ” میں داخلہ لیا وہاں مولانا داؤد مسعود سے مشکاۃ المصابیح اور بعض درسی کتابیں پڑھیں اور حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ اس وقت وہاں زیر تعلیم تھے، عبدالستارصاحب کو انہی دنوں معلوم ہوا کہ میاں چنوں کے قریب چک نمبر 126۔15 ایلی پلی والی میں مدرسہ “دارالہدی” کے نام سے ایک درسگاہ قائم ہوئی وہاں داخلہ لیا وہاں محمد یحیی فروز پوری رحمہ اللہ سے صرفی و نحوی ترکیبات اور تعلیلات کی مہارت حاصل کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس علم میں انہیں مہارت حاصل ہوگئی۔
میاں چنوں میں
عبدالستار صاحب کے والد مہتاب دین میاں چنوں کی جامع مسجد اہل حدیث میں موذن تھے اور وہاں مولانا عبدالقادر حلیم زیروی رحمہ اللہ خطابت کافریضہ سرانجام دیتے تھے والد گرامی کے حکم سے مولانا عبدالقادر حلیم زیروی سے تعلیم حاصل کی جس میں حدیث کی دو کتابیں سن نسائی اور ابن ماجہ کا درس لیا۔
جلال پور میں
جلال پور پیر والامیں شیخ الحدیث حافظ سلطان محمود رحمہ اللہ سے جامع ترمذی اور صحیح البخاری دونوں کتابیں پڑھی اور فارغ التحصیل بھی وہاں سے ہوئے دارالحدیث محمدیہ پیر والا سے سند حاصل کی
جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ
1974ء میں مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ ایک سال کے لیے شیخ الحدیث کی حیثیت سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تشریف لائے حافظ عبدالستار صاحب بھی ان کے پاس پڑھنے کے لیے آئے جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا وہاں ان کے ویرانہ ساتھی
حافظ عبدالغفار اعوان صاحب اور مولانا داؤد فہیم بھی موجود تھےجامعہ میں سالانہ امتحانات کا وقت آیا تو شیخ محترم نے اول پوزیشن حاصل کی انہی دنوں جامعہ سلفیہ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ امتحانات میں پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والے چارطلباء کا مدینہ یونیورسٹی میں خود بخود داخلہ ہوجاتا ہے انہی میں شیخ محترم سرفہرست ہیں سن 1976ء میں مدینہ یونورسٹی کےلیے کاغذات تیار ہوئے اور اللہ تعالی کی مہربانی سے حافظ صاحب کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا اور ایک ان پڑھ خاندان کا فرد دنیا کے بڑے روحانی اور علمی مرکز میں پہنچ گئے، مدینہ یونیورسٹی میں “کلیۃ الشرعیہ “میں داخلہ ہوا تھا اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے نائب رئیس شیخ عبدالمحسن عباد صاحب تھے جو سلفی عقیدہ اور طبیعت کے کچھ سخت تھے ایک دن وہ مسجد نبوی میں ان سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے آپ قرآن مجید کے حافظ ہیں انہوں نے جواب دیا جی تو فرمانے لگے میرے دفتر میں آؤ انہوں نے ان کا داخلہ کلیۃ القرآن میں کردیا انہوں نے اصرار کیا لیکن انہوں نے کہا کلیۃ القرآن میں پڑھو ورنہ ٹکٹ کو لے کر پاکستان چلے جاؤ وہاں محقق العصر ناصر الدین البانی رحمہ اللہ شیخ احمد بن حماد اللہ انصاری کی علمی مجلسوں سے بے حداستفادہ کیا۔
چار سال وہاں قیام کیا 1980 میں مدینہ یونیورسٹی سے سند فراغت حاصل کی۔
سعودی عرب میں خدمات
مدینہ منورہ میں قیام کے زمانے میں تعلیم کے علاوہ حافظ عبد الستار حماد نے حسب ذیل
خدمات سرانجام دیں۔
(1)مسجد نبوی کے خطیب کے خطبہ جمعہ کا بالالتزام اردو ترجمہ کرکے ہفت روزہ ” اہل
حدیث کو بھیجتے رہے اور وہ خطبات اس اخبار میں شائع ہوئے۔
(2) شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے 20 سے زائد اصلاحی کتابچوں کا اردو ترجمہ
کیا،جسے چھوٹےچھوٹے رسائل کی صورت میں مکتبہ الدعوۃ نے ہزاروں کی تعداد شائع کر کے تقسیم کیا۔
(3)محمد عمر یمنی اور محمد عبداللہ یمنی کو عربی میں باقاعدہ علم الفرائض پڑھایا۔
(4)محمد سعد الحربی ان کو قواعد اللغۃ العربیہ یعنی گرائمر پڑھتے رہے۔
(5)ہر مہینے کے اختتام پر مدینہ منورہ میں عمرے کے لیے مکہ مکرمہ جاتے۔ وہاں اہل علم سے ملاقات ہوتی۔ اس سلسلے میں حافظ فتح محمد (فتحی) بالخصوص ان کے معاون ہوتے۔
تدریسی خدمات
1980ء میں وہ مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو “اداراة البحوث العلمیہ” ریاض کی طرف سے پاکستان میں ان کی تقرری عمل میں آئی۔ اس سے قبل مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ بانی و مہتمم دارالحدیث
کمالیہ (راجووال ضلع قصور کی صاحب زادی سے ان کی شادی ہوچکی تھی ممدوح چاہتے تھے کہ تدریس کے لیے ان کی تقرری راجووال کے دارالحدیث میں کی جائے ،
چنانچہ اس کے لیے وہ سفارشی کے طور پر علامہ احسان الہی ظہیر کو ساتھ لے کر
مکتبہ الدعوہ (پاکستان)کے مدیر شیخ عبد العزیز بن محمد کی خدمت میں گئے۔
علامہ صاحب نے ان سے بات کی تو انھوں نے ان الفاظ میں دوٹوک جواب دیا:
“اما الشيخ عبد الستار فقضى الأمر الذي فيه تستفتيان”
یعنی شیخ عبدالستار کے متعلق فیصلہ تو پہلے ہی کردیا گیا ہے۔
انہوں نے حافظ صاحب کا تقرر جامعہ اسلامیہ( بند روڈ لاہور) میں کردیا۔وہاں دو سال تدریس اور ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ان دنوں وہ سمن آباد کی مسجد الہدی میں خطبہ جمعہ دیتے تھے اس طرح تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا اور خطابت کا بھی۔! دو سال کے بعد ان کا تبادلہ جامعہ عزیزیہ ساہیوال میں کردیا گیا۔ وہاں نیانیا شعبہ
تدریس قائم کیا گیا تھا۔
پھر انھیں وہاں سے مدرسہ عربیہ انوریہ طاہر والی (ضلع رحیم یار خاں) بھیج دیا گیا۔ یہ
مدرسہ دیوبندی نقطہ نظر کے حضرات کا تھا۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز کوئی نہ کوئی ناخوش گوار مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریسی خدمات
12جون 1988ء کو ان کا تبادلہ اپنی مادر علمی جامعہ سلفیہ فیصل آباد ہوگیا،
جہاں سے وہ بارہ سال قبل 1976ء میں مدینہ یونیورسٹی کو روانہ ہوئے تھے۔ یہاں وہ چار سال خدمات سر انجام دیتے رہے۔ تدریس کے علاوہ “دارالافتاء” میں رضا کارانہ طور پر فتوی نویسی کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی اور رسالہ “ترجمان الحدیث” کی ادارت بھی انہی کے حوالے کردی گئی تھی۔ یہاں کے اساتذہ اور طلباء سے وہ بے حد خوش تھے۔ ذہنی ہم آہنگی، مسلکی یکجہتی اور فکری موافقت اللہ کا بہت بڑا احسان تھا۔ یہاں ترجمۃ القرآن، کتب فقه، صرف ونحو، اصول حدیث اور تخریج وغیرہ کی تدریس ان کے
ذمے تھی۔ پانچ سال کا عرصہ انتہائی مسرت کے ساتھ انھوں نے یہاں گزارا۔
ماموں کانجن میں بطور استاذ
اس کے بعد اچانک انھیں اطلاع دی گئی کہ وہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن چلے جائیں،
چنانچہ وہ وہاں تشریف لے گئے۔ جامعہ تعلیم الاسلام کا ماحول بھی ان کے فکر و ذہن کے عین مطابق تھا۔ یہاں بھی ان کا ذہین طلبا اور خوش مزاج اساتذہ سے واسطہ پڑا۔ جامعہ تعلیم الاسلام میں ان کو جامع ترمذی، عقیدہ طحاویہ اور حجتہ اللہ البالغہ جیسی کتابیں پڑھانے کا موقع ملا۔ یہاں کی مدت تدریس صرف ایک سال رہی۔
پھر جامعہ اشاعت العلوم چیچہ وطنی بھیج دیے گئے۔ بعد ازاں کچھ عرصہ دار الحدیث محمد یہ ملتان میں رہے۔ اس کے بعد دوبارہ جامعہ اشاعت العلوم چیچہ وطنی تبادلہ کر دیا گیا 2007 تک وہ چیچہ وطنی میں مصروف تدریس رہے اور صحیح البخاری، الفوز الکبیر، مصطلح الحدیث، ہدایۃ النحو اور نفحتہ العرب کی تدریس ان کے ذمے تھی۔وہ عرصہ (30 ) سال سے مختلف مدارس میں
خدمت تدریس سر انجام دے رہے ہیں۔
چند تلامذہ
اس طویل عرصے میں بے شمار طلباء نے ان سے تحصیل علم کیا جن میں سے متعدد حضرات مختلف مقامات میں تدریس و خطابت اور دیگر اہم خدمات پر مامور ہیں۔ (1) فضیلتہ الشیخ پروفیسر عبدالرزاق ساجد حفظہ اللہ(خطیب پاکستان )
(2)فضیلتہ الشيخ سیف اللہ خالد صاحب (دار الاندلس لاہور )
(3)فضیلتہ الشيخ حافظ شبیر احمد صاحب (جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ)
(4)محترم جناب حافظ محمد نذیر صاحب (ڈیرہ غازی خان)
(5)محترم جناب عبد الماجد صاحب (ڈیرہ غازی خان)
(6)فضیلتہ الشيخ حافظ محمد ایوب صاحب( شیخ الحدیث: مدرسه درسہ تعلیم القرآن حیدر آباد)
(7) پروفیسر عبدالرحمن عقیق صاحب (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد )
(8) محترم جناب محمد سعد صاحب (مدرس الحرم المکی مکہ مکرمہ )
(9) محترم حافظ عبد الغفار صاحب (خطيب مسجد الفردوس میاں چنوں)
(10) جناب محمد عمر میمنی صاحب (مدرس مدرسه الشاعة التوحيد يمن)
(11) جناب محمد عبد اللہ یمنی صاحب ( مدرس مدرسہ اشاعت التوحید یمن)
(12) محمد ہارون سوڈانی (مدرس: مدرسہ اسلامیہ سوڈان)
(13) فضیلتہ الشيخ محمد سرور عاصم حفظہ اللہ( مکتبہ اسلامیہ، فیصل آباد و لاہور )
(14)محترم قاری رفیق الرحمن صاحب ( قباء اسلامک اکیڈیمی سرگودھا)
(15) فضیلتہ الشيخ عبد اللطيف صاحب (مدرسه البدر الاسلامیہ بہاول پور)
(16)محترم قاری محمد ایوب صاحب(جامعہ ختم نبوت چنیوٹ)
تصنیفی خدمات
حافظ صاحب نے مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی میں قلم وقرطاس سے رابطہ پیدا کرلیا تھا۔ اس کا آغاز انھوں نے ترجمے سے کیا۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں بتایا گیا چند کتب درج ذیل ہیں۔
(0)ہدایة القاری شرح صحیح البخاری۔
(1) غیراللہ سے فریاد اور اسلام۔
(2) بدعات و رسوم اور اسلام
(3) فتنہ انکارحدیث اور اسلام
(4) فضیلت جہاد اور اسلام
(5) تصویر کشی اور اسلام
(6) دعوت و تبلیغ اور اسلام”
(7) ماہ رمضان اور اسلام
(8) جشن میلاد اور اسلام
(9) فریضہ زکوۃ اور اسلام
(10)ناموس عورت اور اسلام
(11) قوم یہود اور اسلام
(12) نصرت ایزدی اور اسلام
(13) اہمیت نماز اور اسلام
(14)فتاوی اصحاب الحدیث
(15) ایک جھوٹا وصیت نامه
(16) رہنمائے حج و عمرہ
(17) طریقہ نماز نبوی
(18)پندو نصیحت
(19) پردہ اور اسلام
چند تراجم کتب
(20) عقیدہ اہل السنة والجماعہ کتاب وسنت کی روشنی میں۔
(21) شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کی دعوت
(22)سهیل مقدمه ابن الصلاح (سوالاً جواباً)
(23)قیام رمضان اور احکام صیام و عیدین (ترجمہ)
(24) عیدین کے مسائل اور قربانی کے آداب(ترجمہ )
(25)تمباکو نوشی کا شرعی حکم(ترجمہ )
(26) نظام اشتراکیت اور اسلام (ترجمہ)
(27)مختصر صحیح بخاری(ترجمہ)
(28) آئینہ جمال نبوت (ترجمہ)
(29)حجیت حدیث(ترجمہ)
(30)کتاب الجہاد(ترجمہ)
ان تصانیف و تراجم کے علاوہ حافظ صاحب کے مختلف رسائل میں شائع ہونے والے مضامین نشر ہوتے رہتے ہیں جن میں
سرفہرست ہفت روزہ اہل حدیث۔
خطابت
عرصہ 30 سال سے ملتان کی ایک سب
سےقدیم اور بڑی مسجد اہل حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے ہیں۔ اس طرح مختلف علمی کاموں میں وہ ہروقت
مصروف رہتے ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ انھیں تمام امور خیر کی انجام دہی کی توفیق مرحمت فرمائے۔

●ناشر :حافظ امجد ربانی
●متعلم :جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:مولانا تفضیل احمد ضیغم صاحب حفظہ اللہ