سوال (1017)

شیخ عبدالسلام الشویعر ایک ویڈیو میں سینے پر ہاتھ باندھنے کو مکروہ کہتے ہیں ؟ شیخ اس حوالے سے وضاحت درکار ہے۔

جواب

میری گزارش ہے کہ یہ کوئی کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کی آڑ میں ہم علماء کی تحقیر اور ان پر رد شروع کر دیتے ہیں ، نماز میں ہاتھوں کو فوق السرہ اور تحت السرہ رکھنا دونوں طرح تابعین عظام اور آئمہ دین سلف صالحین سے ثابت ہے اور اس بارے میں جو مرفوع روایات ہیں ان میں کلام ہے ، اس مسئلے میں وسعت ہے خود میں وسعت ظرفی پیدا کریں اور ایسی بات نہ کہیں جس کی زد میں آئمہ دین آ جائیں۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

جس بھائی نے ویڈيو بھیجی ہے، اس کا مقصد مسئلے کی وضاحت ہو گی. یقینا وہ بھی اسے کفر و اسلام کے مابین حد فاصل نہیں سمجھتے ہوں گے!
اور ویسے بھی یہاں جتنے مسائل زیر بحث آتے ہیں وہ عموما اسلام کے اندر والے ہی ہیں، کفر و اسلام والے کم ہی زیر بحث آتے ہیں!
ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جن مسائل پر بحث در بحث ہو چکی ہوئی ہے، اس میں خود پڑھنے اور سیکھنے کا مزاج بنانا چاہیے، ایک عالم دین کی بات اٹھا کر دوسرے کے سامنے کہ اس کا مدلل رد کر دیں اور دوسرے کی پہلے کے سامنے کہ مدلل جواب دے دیں، یہ مناسب رویہ نہیں!
بہر صورت شیخ شویعر نے اس میں بنیادی طور پر دو باتیں کی ہیں، جن کے بارے میں گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ وضع الیدین علے الصدر والی روایت ضعیف ہے، بعض اہل علم نے اس کو منکر قرار دیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علی السرۃ والی کو بھی کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جس طرح بعض اہل علم السرۃ والی روایات کو ترجیح دیتے ہیں، اسی طرح کئی ایک محدثین علی الصدر والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم اہل حدیث کے نزدیک علی الصدر والی روایت کی استنادی حیثیت نسبتا بہتر ہے۔ جس کی تفصیل نماز پر لکھی گئی عمومی کتابوں یا مسئلہ وضع الیدین علی الصدر پر لکھی گئی مستقل کتابوں میں موجود ہے۔
2۔ وضع الیدین علی الصدر مکروہ ہے، کیونکہ یہ یہود کا طریقہ ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں. یہودی صرف سینے پر ہاتھ نہیں باندھتے، بلکہ وہ کھڑے ہونے کی مکمل کیفیت ہے، جس میں گردن کا جھکاؤ اور کھڑے ہونے کا مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ارسال الیدین والے نماز میں ہاتھ باندھنے کو ہی یہود کا طریقہ قرار دے دیں، یا کوئی شخص مجرد قیام کو ہی یہود کا طریقہ قرار دے دے!
دوسری بات: جب سینے پر ہاتھ باندھنے والوں کی دلیل سنت اور (ان کے نزدیک) ثابت حدیث ہے، تو پھر یہودیوں کے ساتھ مشابہت ہونا نہ ہونا، یہ بے معنی بات ہے۔
اور سینے پر ہاتھ باندھنے والے اس مسئلے کو اگر سلف میں سے یا معتبر اہل علم میں سے کسی نے یہود کے ساتھ تشبیہ دی ہے، تو ہم اسے ایک اجتہادی خطا سمجھتے ہیں، لیکن اگر یہ محض شیخ شویعر یا کسی کا ذاتی اجتہاد اور تحقیق ہے، تو انتہائی نامناسب استدلال اور طریقہ کار ہے، اہل علم کو ان رویوں سے بلند تر رہتے ہوئے اپنا موقف بیان کرنا چاہیے!
آخر میں یہ وضاحت کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا یا ان درجنوں میں مسائل میں سے ایک ہے، جو اہل علم کے ہاں شدید مختلف فیہ ہے… لہذا دلائل کی رو سے جو بھی موقف اختیار کیا جائے، اس میں کوئی حرج نہیں. ان شاءاللہ.. لیکن علم و ادب کے دائرے میں رہنا، امانت و دیانت اور عدل و انصاف کا خیال رکھنا کوئی مختلف فیہ مسئلہ نہیں ہے، لہذا اختلافی مسائل کے سبب اس متفق علیہ مسئلہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

بارک اللہ فیکم شیخ شاید آپ کو معلوم ہو کچھ دن پہلے اسی گروپ میں شیخ شویعر کی اس بات کے رد میں ایک کتاب بھیجی گئی تھی وہ پسندیدہ نہیں تھی تجہیل اور تقلید کے طعنوں پر مشتمل تھی۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

نعم.تذكرت. مؤلف ذلك الكتاب معروف بالتبديع والهجوم على الجميع!له ردود حتى على العباد وابنه البدر !

لیکن اس کتاب میں شیخ شویعر کے موقف کا تفصیلی رد موجود ہے، اس حوالے سے وہ کتاب مفید ہے۔
چند دن قبل فضیلۃ الشیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کا ایک کلپ بھی منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے شیخ شویعر کی تردید کی ہے اور فرمایا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کو یہودیوں کا طریقہ قرارا دینا، یہ قول امام احمد وغیرہ کے ہاں کہیں نہیں مل سکا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سینے پر ہاتھ باندھنے کے حوالے سے مرفوعا کوئی چیز ثابت نہیں عین سینے پر باندھنے کے حوالے سے نہ زیر ناف ، ہاں البتہ سہل رضی اللہ عنہ کی کی حدیث کے ظاہر سے جو بخاری میں عند الصدر باندھنے کو ترجیح ملتی ہے۔ امام احمد مکروہ سمجھتے ہیں عین سینے پر ہاتھ باندھنے کو۔ جو اختلاف امام ترمذی نے نقل کیا اس میں فوق السرہ یعنی عندالصدر اور تحت السرہ کا ذکر ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ معاملہ آسان ہے۔
اسی سے شیخ ندیم منڈی واربرٹن والے کہتے تھے کہ علی الصدر پر سلف میں سے کسی کا قول نہیں۔
جبکہ امر واقع میں اسحاق بن راھویہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول علی الصدر کا موجود ہے۔
اگرچہ اسے عند الصدر محمول کر لیا جائے۔
علی الصدر کی احسن سند طاؤوس کی مرسل ہے.جسے ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا۔
علی کل حال عند الصدر یعنی فوق السرة ہاتھ باندھیں جائیں یہ احسن ہے۔۔واللہ۔اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ