سوال (821)

زکاۃ کے پیسوں سے راشن خرید کر تقسیم کرنے کے لیے نکلا تو ڈاکووں نے رقم چھین لی ہے ، تو کیا اب وہ دوبارہ زکاۃ دے گا ؟ شافعيہ اور مالكيہ کے نزدیک تو ادا ہو گئی ہے لیکن باقی فقہاء اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
اہل الحدیث کی اس بارے کیا رائے ہے؟

جواب

اس سوال کے جواب میں اہل علم کی آراء میں اختلاف تھا، بعض نے کہا کہ زکاۃ ادا ہوگئی، اور بعض کا موقف تھا کہ ادا نہیں ہوئی، بلکہ دوبارہ ادا کرنا ہوگی۔ دلائل کی مضبوطی کو ملاحظہ کرتے ہوئے، کسی بھی ایک موقف کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
تفصیل ملاحظہ فرمالیں:
زکوٰۃ ابھی مستحقین کی مِلک میں نہیں پہنچی ہے ، لہذا دوبارہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

زکاۃ ادا ہو گئی ہے ، دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کی ایک دلیل حضرت معن بن یزید والی روایت ہے ۔ دوسری دلیل حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے جس میں ایک آدمی صدقہ کرنا چاہتا ہے تو وہ چور کو دے دیتا ہے۔الخ ، نیز رفع حرج کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے دوبارہ زکاۃ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

چور پر صدقہ والی روایت میں صدقہ سے مراد نفلی صدقہ ہے یا زکوٰۃ ؟ اور اس میں زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے بھی کوئی وضاحت ہے کیا؟ بالفرض اگر اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہو تو تب بھی یہ تو مسئلہ ہی اور ہے ، ایک ہے زکوٰۃ کا مال انسان سے چوری ہو جانا ، دوسرا ہے زکوٰۃ ادا کرنے میں غلطی کرنا ، اس حوالے سے بھی ابن رجب نے قواعد میں تفصیل اور اختلاف ذکر کیا ہے۔
“بینهما برزخ لا يبغيان”
ایک بندے نے کسی کا قرض دینا ہے وہ ایک بندے کو پکڑا دیتا ہے کہ میری طرف سے قرض ادا کر آؤ ، لیکن راستے میں وکیل سے چوری ہو جاتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں قرض ادا ہو گیا ہے ؟

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

قرآن مجید نے تو نفلی و فرضی میں فرق نہیں کیا اور کہا “انما الصدقات” تو ہم کیوں کریں۔
چھین لیا جانا تو چوری ہو جانے سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ یہ قیاس مع الفارق ہے

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شیخ سمجھنے کے لیے فرق کرنا ضروری ہے ، ایسے تو پھر جہاں بھی نصوص میں لفظ صدقہ ہوگا اس سے مراد زکوٰۃ ہی ہے کیا؟

“قول معروف و مغفرة خیر من صدقة”
“فقدموا بین یدی نجواکم صدقة”
“نفقة الرجل على اهله له صدقة”

پھر یہ اور ان جیسی بیسیوں نصوص سے مراد بھی زکوٰۃ لیں ، کیونکہ قرآن مجید نے تو نفلی اور فرضی میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔
شیخ میں نے چوری اور چھین لینے میں فرق نہیں کیا ہے۔
بہر کیف ابو ہریرہ رض والی روایت سے جو استدلال آپ کر رہے ہیں شدید محل نظر ہے بلکہ ۔فیہ بُعد ، ایک تو یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے جو نبی کریم نے بطور خبر سنایا ہے لہذا اس سے استدلال ویسے ہی درست نہیں ۔
اگر پہلی دفعہ اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی تھی تو نبی کریم نے اس کی وضاحت کیوں نہ فرمائی حالانکہ اس نے تو تین دفعہ صدقہ کیا تھا
نبی کریم کو وضاحت کرنی چاہیے تھی کی پہلی دفعہ ہی اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے۔ کیونکہ اصول ہے کہ
لا یجوز تاخیر البیان عن وقت الحاجة.
اس استدلال پر اور بھی بہت سے اشکالات ہیں
جہاں تک آپ کا یہ فرمانا ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے تو گزارش ہے کہ پہلے قیاس کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، قرض اور زکوۃ میں اگرچہ فرق ہے، لیکن اس معاملے میں دونوں ایک ہی ہیں، جیسا کہ ان کی تعریف سے واضح ہوتا ہے:
قرض: حق متعلق بالغير لا تبرأ الذمة الا بأدائها الى مستحقها
زکوٰۃ: حق متعلق بالغیر لا تبرأ الذمة الا بايصالها الى مستحقها
اگر صرف نام کا فرق دیکھ کر مع الفارق کہا جائے تو پھر تو قیاس کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، کیونکہ کوئی بھی دو چیزیں ایک دوسری کے ساتھ من کل الوجوہ مشابہ نہیں ہوتیں!
بہر کیف مسئلہ اختلافی ہے۔ لکل وجھہ
لیکن جس روایت سے آپ استدلال کر رہے ہیں وہ شدید محل نظر ہے۔

فضیلۃ العالم داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

میرا مطلب تھا کہ چھین لیا جانا غلطی ہونے سے زیادہ سنگین ہے جبکہ غلطی کا سدھار ممکن تھا۔ اس لحاظ سے یہاں قیاس اولی کار فرما ہے۔
عجیب بات ہے کہ ایک طرف آپ قیاس مع الفارق پیش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف قیاس اولی میں مین میکھ نکال رہے ہیں۔
بہرحال اگر مسئلہ اختلافی تھا تو اصولاً آپ کو بولنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اختلافی رائے کو برداشت کرنا سیکھیے، دوست۔
باقی قیاس کی نوعیت والی بات درست نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

اس مسئلے میں ہمارا وزن حافظ قمر حسن حفظہ اللہ کے ساتھ ہے ، ان کا استدلال میرے نزدیک اچھا ہے ، میرے خیال میں اس پر البئر جبار والی حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے، باقی اہل علم کی آراء دونوں طرف ہیں ، شیخ قمر حسن کا فتوی یسر (آسانی) پر ہے ، فتوے کی بنیاد یسر پر ہوتی ہے ، اس حساب سے شیخ کی بات زیادہ مناسب ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی شیخنا اگر فتوی کی بنیاد مصلحت اور یسر پر رکھنی ہے تو پھر نصاب زکوٰۃ میں بھی علماء کے ہاں شدید اختلاف ہے کہ سونے کے مطابق قیمت نکالی جائے گی یا چاندی کے حساب سے۔ ادھر ہم کہتے ہیں کہ غریبوں کے لیے زیادہ بہتر چاندی کے حساب سے ہے۔
اس مسئلے میں بھی ہم کہیں گے کہ غریبوں کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوبارہ زکوٰۃ دی جائے۔ کیونکہ اگر زکوٰۃ دینے والے کی آسانی کو دیکھنا ہے تو پھر نصاب بھی سونے کے لحاظ سے متعین کرنا آسانی ہے۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ