●فضیلتہ الشیخ مولانا فاروق الرحمن یزدانی صاحب حفظہ اللہ (مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد )کا مختصر تعارف●

“ملائكة حراس السماء وأصحاب الحديث حراس الأرض‘‘
’’فرشتے آسمان کے نگہبان ہیں اور محدثین زمین کے‘‘

حافظ فاروق الرحمن یزدانی 1969 ء میں بمقام چک نمبر 16ر.ب ( تحصیل منڈی ڈھاہاں سنگھ ضلع شیخو پورہ) میں پیدا ہوئے۔  والدکااسم گرامی عبد اللطیف تھا۔
قرآن مجید ناظرہ گھر میں پڑھا۔ اُردو کی بعض کتابیں بھی گھر میں پڑھیں۔ پھر ضلع شیخوپورہ کے ایک قصبے فاروق آباد چلے گئے ۔ جہاں حافظ عبدالرزاق سعیدی کا سلسلہ درس جاری تھا۔ (جامعہ رحمانیہ)۔ وہاں قرآن مجید حفظ کیا اور 1986 میں قاری محمد ادریس عاصم رحمہ اللہ( مہتمم مدرسہ حفظ القرآن مسجد لسوڑیاں والی لاہور) نے امتحان لیا اور اول درجے میں کامیاب ہوئے۔ حافظ فاروق الرحمن نے سکول میں پرائمری پاس کی تو ان کے والدین انہیں دنیاوی تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ لیکن بیٹے نے دینی علوم حاصل کرنے پر اصرار کیا۔ اور وہ گوجرانوالہ جاکر جامعہ محمدیہ میں داخل ہوگئے۔ وہاں صرف،  نحو، عربی ادب ،اصول فقہ ،حدیث، منطق وغیرہ کی مروجہ علوم کی کتب پڑھیں ۔ فارسی کی کتابیں بھی پڑھیں۔وہی سے 1993ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب نے اسی سال وفاق المدارس السلفیہ کا امتحان دیا ممتاز پوزیشن حاصل کی۔
حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب کے اساتذہ کرام میں مندرجہ ذیل حضرات شامل ہیں۔
(1)حافظ عبدالرزاق سعیدی،
(2) مولانا عبد الحمید ہزاروی،
(3) حافظ عبد السلام بھٹوی،
(4) حافظ عبدالمنان نورپوری ،
(5)مولانا عبداللہ امجد چھتوی،
(6)حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ
(7) حافظ محمد عباس انجم گوندلوی ،
(8) مولانا محمد رفیق سلفی،
(9) مولانا جمعہ خان صاحب ،
(10)مولانا حفیظ الرحمن لکھوی ،
(11) قاضی عبد الرزاق صاحب
اور قاری عبدالشکور مدنی ۔
حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب نے زمانہ طالبعلمی ہی سے خطابت کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ضلع گوجرانوالہ میں ایک گاؤں کانام
” ترگڑی” ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہ کافی بڑا گاؤں ہے۔اس گاؤں کی وسعت اور آبادی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں چار مساجد بریلوی حضرات کی، ایک عبادت خانہ مرزائیوں کا، ایک گرجاگھر عیسائیوں کا ایک چھوٹی سی مسجد اہل حدیث کی بھی قائم تھی۔  مولانا یزدانی صاحب نے اس مسجد میں توحید وسنت کا پر چار شروع کیا۔ ان کی دعوت سے تھوڑے ہی عرصے میں وہاں کئی لوگ مسلک اہلحدیث  کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے ۔ قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد 80 سے بھی متجاوز ہوگئی اور نماز جمعہ کے لئے لوگ دور دور سے آنے لگے ۔ ان کے لئے مسجد کی چھت پر نماز کا انتظام ہونے لگا۔ مسلک اہل حدیث کی اس ترویج واشاعت کو مخالف کب تک برداشت کرسکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے بہانوں سے وہاں کی جماعت اہلحدیث کو تنگ کرنا شروع کیا۔ ان مواقع پر اللہ تعالی نے مددفرمائی اور اہلحدیث کو نصرت وکامیابی سے ہمکنار کیا۔ بات کیوں کہ تھانے کچہری میں  چلی گئی تھی ۔ لہذا انتظامی و عدلیہ کے اعلی افسران کی موجودگی میں یہ معاہدہ تحریر ہوا کہ سوائے اذان کے لاؤڈسپیکر پر کچھ نہ پڑھا جائے گا۔ بریلوی حضرات اذان سے پہلے اور بعد جو مروجہ صلوۃ پڑھتے ہیں اس کے سپیکر پر پڑھنے پر ممانعت کردی گئی۔ حتی کہ وہ قل، چالیسواں وغیرہ کا اعلان بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ بہت بڑی کامیابی جو یزدانی صاحب کی کوشش سے حاصل ہوئی۔ اس کے بعد خوش اسلوبی سے وہاں معاملہ چلتارہا۔ مولانا یزدانی صاحب ذہین و فطین اور صاحب علم عالم دین ہیں۔ بحث مباحثہ اور مناظرے کی طرف رجحان زیادہ ہے۔ مخالف کی دلیل کا نقلی  عقلی دلائل سے رد کرنا اور حاضر جوابی سے مخالف کو خاموش کر دینا انہیں آتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی وہ اس میدان میں کود پڑے تھے ۔ کافی مناظرے کیے ہیں یہاں ایک ذکر کرتا ہوں۔ان کے پھوپھی زاد حافظ عطاءالرحمان طارق جو کہ آج کل کوٹ عبدالمالک میں خطیب ہیں اور وہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے سند یافتہ ہیں۔ ان سے رفع الیدین کے موضوع پر ایک معاہدے کے تحت مناظرہ ہوا کہ اگر رفیع الدین  عند الرکوع و بعد الرکوع صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے تو وہ اہل حدیث ہو جائیں گے اگر ثابت نہ ہو تو یزدانی صاحب حنفی مسلک قبول کرلیں گے۔
چنانچہ پانچ گھنٹے کی طویل گفتگو ہوئی۔ حافظ طارق صاحب اپنے موقف کو دلائل سے ثابت نہ کر سکے اور انہوں نے رفع الیدین عند الرکوع اور بعد الرکوع کے سنت ہونے کا اقرار کیا اور یہیں پر بس نہیں بلکہ رات کو اسی وقت اپنے مکان کی چھت پر حاضرین مناظرہ کو رفع الیدین کر کے دو
رکعت نماز پڑھائی۔ یہاں یہ بھی یادرہے کہ اس مناظرے میں حافظ طارق صاحب کی معاونت
کےلیےجامعہ اشرفیہ کے کئی فاضل اساتذہ بھی موجود تھے۔ افسوس کہ طارق صاحب تقلید نامراد کی وجہ سے اپنے موقف پر قائم نہ رہ سکے اور دوبارہ حنیفت پر جامد ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔

بعد ازاں راہوالی ( ضلع گوجرانوالہ ) خطبہ جمعہ کا سلسلہ شروع کردیا۔ پھر حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب چک نمبر 87 میر پور (ضلع شیخوپورہ پورہ) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے۔ اب مفتی جامعہ عبدالحنان زاہد صاحب حفظہ اللہ کی مسند پر خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں۔ 2002 سے مولانا فاروق الرحمن یزدانی صاحب حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد  میں خدمات تدریس میں مشغول ہیں۔حافظ فاروق الرحمن یزدانی
صاحب  جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں21  سال سے تدریسی  خدمات احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔جامعہ میں ترجمۃ القرآن، سنن ابی داؤد،  صرف ونحو کے مضامین پڑھاتے ہیں۔ اور بہت باصلاحیت اور منتظم ہیں۔
جس کام کی زمہ داری ان کو دی جاتی وہ قبول کرتے ہیں۔ پوری لگن اور محنت سے کرتے ہیں ۔ جامعہ سلفیہ کے شعبہ دار الاقامہ(رہائش )کے انچارج بھی ہیں ۔ جامعہ کے ماہنائے ترجمان الحدیث (فیصل آباد) کے مدیر بھی ہیں۔ چند کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔
(1)احناف کارسول اللہ ﷺ سے اختلاف،
(2)جواہر ہدایت ،
(3)خرافات حنیفت بجواب تحفہ اہل حدیث ،
(4)مسلک اعتدال، مسلک اہل حدیث
(5)مفکر اسلام حکیم حافظ عبدالرزاق سعیدی،
(6)تنویر الاحوذی؛ شرح جامع ترمذی،
(7)بقیةالسلف حافظ محمد یوسف گھکڑوی،
(8)فاروقی سبع سنابل،
اور کچھ غیر مطبوع بھی ہیں۔
یہ مختصر حالات تھے جو میں نے ذکر کرنے کی سعی کی ہے۔ اللہ تعالٰی استاد محترم کو ہمت دے کہ وہ دعوت
دین کا کام محنت خلوص اور جذبے سے کرتے رہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر بہاءالدین محمد سلیمان اظہر حفظہ اللہ

● ناشر: حافظ امجد ربانی
● متعلم جامعہ سلفیہ فیصل آباد