سوال (976)

ایک شخص جس کے بیرون ملک متعدد کاروبار ہیں ، سب کی آمدن اسے جب اپنے ملک پاکستان میں رقم کی صورت میں موصول ہوتی ہے ، اس پر طرح طرح کے ٹیکس ہیں ، جو وہ ادا کرتا ہے۔ ایک کاروبار کی آمدن وہ چاہتا ہے کہ اس کی ٹیکس کی شکل میں کٹوتی سے بچ سکے ، اس کام کے لیے وہ کسی کاروباری دوست کی معاونت لیتا ہے کہ آپ کا بزنس اکاؤنٹ ہے ، میں اپنی رقم جیسے جیسے آنی ہوگی ، وہ آپ کے اکاونٹ میں منگوا لیتا ہوں ، اس رقم سے کچھ حصہ آپ کو بھی دے دوں ، کتنے فیصد رقم میں آپ کو دوں گا ، اس معاملہ کو وہ طے کرلیتے ہیں ، کیا ایسا کرنا درست رہے ؟ نیز یہ بتائیں کہ جو شخص رقم جو اپنے اکاونٹ کے بدلے لے رہا ہے یہ لینا اس کے لیے درست ہے ؟

جواب

اپنا پیسہ یا اپنی چیز بنوانے کے لیے کسی کی مدد لی جا سکتی ہے ، بشرطیکہ وہ پیسہ جائز طریقے سے کمایا گیا ہو ، جائز پیسہ ہو اور وہ چیز جائز ہو ، اس میں خیانت کرکے کسی کا حق نہ مارا گیا ہو ، باقی جو کچھ ہو رہا ہے وہ حالات کا جبر ہے ، ٹیکس مسلمانوں پر نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے ہمارے مشائخ نے پچھلے دنوں کہا ہے کہ اکابر علماء نے کہا ہے کہ بچ سکتے ہیں تو بچیں ، اگر آپ دے دیتے ہیں تو اس پر بھی آپ کو اجر ملے گا کیونکہ آپ بغاوت نہیں کر رہے ہیں اور نہیں کرنی چاہیے ، خروج نہیں کر رہے ہیں اور تصادم نہیں کر رہے ہیں اور نہ حاکم وقت سے کرنی چاہیے ، لیکن کوئی صورت ایسی ہے جس سے آپ ٹیکس سے بچ سکتے ہیں تو بچ جائیے ، تو یہ وہ ہی صورت ہے ، ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ جو اس کو اس طرح ہیلپ دیتا ہے ، ٹیکس کے اس ظلم سے بچاتا ہے ، وہ اسے طے کرکے یا بغیر طے کیے کوئی چیز دیتا ہے ، تو کمیشن والی بات ہے کہ آپ میرا کام نکلوا دیں میں آپ کو اتنی رقم دونگا ، اس میں کیا حرج ہے ، یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا ہے ، رشوت وہ ہوتی ہے ، جس میں کسی کا حق مارا جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ٹیکس شرعا ناجائز ہے ، مسلمان امراء پر زکاۃ ہے ، بعض صورتوں میں زکاۃ کے علاؤہ کچھ رقم معاشرے کے بعض طبقات پر واجب کی جا سکتی ہے ۔ جو وقتی ہوگی ، اس میں مسلمان کی مصلحت ہو گی اور بعض طبقات پر ہو گی جو اس کے متحمل ہیں ۔ اس کی تفصیل شاطبی رحمہ اللہ نے پیش کی ہے ۔ اگر کوئی آدمی موجودہ ٹیکس سے بچ سکتا ہے تو ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں ہے ۔ مال اچھے سے کمائے اور اللہ کا حق ادا کرے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ