فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤوف سندھو رحمہ اللہ

سوال :شیخ محترم آپ کا نام، اور آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: میرا نام عبدالرؤوف بن عبد الحنان بن محمد اشرف ہے۔اور جائے پیدائش ’سندھو کلاں‘ ہے۔ سندھو ایک قبیلہ بھی ہے۔اور ایک گاؤں کا نام بھی ہے، جو کہ بھائی پھیرو سے بونگا بلوچاں کی طرف سرائے مغل روڈ، نزد بلوکی میں واقع ہے۔وہاں میری پیدائش ہوئی۔ درست تاریخ پیدائش 18 جولائی1956 ہے ، جبکہ شناختی کارڈ میں 15دسمبر1956 لکھا ہوا ہے۔
دادا جی کا ، ان کی بعض عربی تصانیف کے سبب، عربوں میں اچھا تعارف موجود ہے، بالخصوص ” أكمل البيان في شرح حديث النجد قرن الشيطان” تو کئی ایک ویب سائٹس پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے۔
ایک دفعہ ایک کویتی دوست نے کویت میں اپنی ایک مجلس میں میرا درس رکھا، تو درس سے قبل انہوں نے ’تقدیم‘ کے طور پر مجھ سے کچھ چیزیں دریافت کیں، تاکہ درس سے قبل وہ تعارف کے طور پر بیان کر سکیں۔ جب میں نے کہا کہ میری ولادت “سندھو” میں ہوئی تھی۔ تو اس نے فورا کہا: ’شیخ محمد اشرف سندھو‘! میں نے کہا: وہ میرے دادا ہیں۔
اسی طرح جب میں پہلی دفعہ کویت آیا، تو وہاں اس وقت’ مجلسِ سماعِ حدیث‘ کاتین چار ماہ بعد انعقاد ہوتا تھا۔ ان مجالس میں دیگر ممالک سے بھی طلبہ شریک ہوتے تھے۔
وہاں ایک شامی عالم دین بھی آئےتھے، جو سعودی عرب، ریاض میں مقیم تھے۔ ان کے ساتھ جب تعارف ہوا، تو انہوں نے میری کتابوں کے متعلق دریافت کیا، تو میرے منہ پر سب سے پہلے ’أحسن المقال فی تخریج حدیث ’كل أمر ذي بال‘ کا نام نکلا، تو وہ کہنے لگے: میں نے تو اس کا اپنی ایک کتاب میں حوالہ بھی دیا ہوا ہے۔پھر میں نے بتایا کہ میرے دادا جی کی بھی کئی ایک کتابیں ہیں۔ تو وہ کہنے لگے: ان کا نام کیا ہے؟ میں نےابھی ’محمد اشرف…‘ ہی کہا تو کہنے لگے:’ محمد اشرف سندھو‘؟!اور پھر بتانے لگے کہ فضیلۃ الشیخ عبدالوکیل ہاشمی ان کے بارے میں کافی واقعات سنایا کرتے ہیں۔

سوال: شیخ محترم اپنی تعلیم، اور اس کے مختلف مراحل کے متعلق آگاہ کیجیے؟

جواب: میں نے 1972میں مڈل کیا، اس کے بعد میٹرک میں داخلہ لیا۔ ابھی ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے ،کہ ایک بزرگ، جو دادا جی کے شاگردوں میں سے تھے، ہمارے پاس تشریف لائے،اور جمعے کے بعد والد محترم سے کہنے لگےکہ ہم نے ایک حفظ القرآن کا مدرسہ بنایا ہے، ہمیں طالب علم چاہییں۔ ان کی بات نے مجھ پر بہت اثر کیا ،میں نے گھر والوں سے کہا کہ میں نے حفظ کرنا ہے ،تو گھر والے کہنے لگے کہ پہلے میٹرک کر لو، لیکن میرے ذہن میں حفظ کا شو ق پیدا ہو چکا تھا،میں اپنی خواہش پر مصر تھا۔ والدہ محترمہ کو اس طر ح مطمئن کر لیا کہ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تو والدہ بہت بیمار ہو گئیں ،اور رو کر کہنے لگیں کہ میری خواہش تھی کہ میں اپنے بیٹے کو حفظ کرواؤں گی۔ جب میں نے انہیں یہ بات یاد دلائی کہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا ،تو وہ خاموش ہو گئیں۔جو بزرگ تشریف لائےتھے ان سے طلباء کا انتظام نہ ہوسکا تو میں نے اپنے خالو کے پاس حفظ شروع کر دیا۔ میرے خالو بہت اچھے قاری تھے،انہوں نےشیش محل میں ایک دفعہ نماز تراویح پڑھائیں، مولانا ابوبکرغزنوی رحمہ اللہ نے ان کے پیچھے قرآن کھول کر سنا ،تو ایک دو غلطی ہی آئیں ۔ اس کے بعد وہ مسجد قدس چلے گئے ،تو میں بھی ان کے ساتھ ہی وہاں چلا گیا ۔لیکن وہاں بھی کچھ مسائل کے سبب حفظ مکمل نا کر سکا ۔پھر میں وہاں سے ناروکی -جو کہ پتوکی کے نزدیک ایک گاؤں ہے- وہاں حفظ اور کتابوں کا مدرسہ تھا، تو وہاں چلا گیا۔اور حفظ مکمل کیا۔
وہاں حفظ کے ساتھ ساتھ شعبہ کتب بھی تھا، اور وہاں سے ہی میرے والد صاحب نے ابتدائی کتابیں پڑھیں تھیں۔استاد محترم مولانا عبدالقیوم جوکہ مو لانا نیک محمد کے شاگردوں میں سے تھے۔والد صاحب کے پہلے استاد تھے، اور وہیں سے 1974 میں حفظِ قرآن کی تکمیل کی ۔حفظ مکمل کرنے کے بعد شو ق پیدا ہوا کہ کتا بیں بھی پڑھنی چاہییں،تو پہلی دو کلاسیں وہاں ہی پڑھیں۔بعد میں جامعہ سلفیہ، فیصل آباد آگیا، لیکن دوسرے سال ہی جامعہ کے حالات کچھ خراب ہو گئے، جس کی وجہ سے کچھ اساتذہ وہاں سے چھوڑ گئے۔ ان میں سے حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب رحمہ اللہ بھی تھے ، تو یہ سب لاہور آگئے اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی تائید و مشاورت سے اپنا ایک مدرسہ قائم کیا۔ ہم وہاں پڑھنے لگے۔ جب آخری کلاس والوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کے لیے کاغذات بنا نا شروع کیے ،تو ایک دن جامعہ کے مدیر صاحب نے مجھے بلایا،او ر کہا کہ آپ کے اور آپ کے ساتھ فلاں ساتھی کے کاغذات ہم جامعہ کی طرف سے بھیجیں گے۔پھر انہوں نے سوچا کہ شايد دونوں کا داخلہ نہ ہو، لہٰذا صرف آپ کا داخلہ ہی بھیجنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ پہلے دو کی بات ہوئی تھی ، تو اب ايسے کرنا مناسب نہیں، لہذا ہم دو طالبعلموں کا داخلہ بھیج دیا گیا۔لیکن اللہ کی قدرت دیکھیں کہ میرا داخلہ نہ ہوا، دوسرے سا تھی کا ہوگیا۔
انہیں دنوں ہمارے ایک ساتھی کو خواب بھی آئی ، کہ ایک کے سوا ہم سب کا داخلہ ہوگیا ہے۔ اور یہ خواب واقعتا سچی بھی ثابت ہوئی۔ بلکہ میرا تو ایک طرح سے دو دفعہ داخلہ ہوا۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جامعہ اسلامیہ لاھور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم واپس جامعہ سلفیہ چلے آئے، تو وہاں مدینہ منورہ سے ایک وفد آیا، جس میں شیخ ابو بکر جابر جزائری رحمہ اللہ بھی تھے، میں نے ان کو اپنے دادا کا رسالہ ’اکمل البیان فی شرح حدیث قرن شیطان‘دیا ۔تو وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اور مجھے کہنے لگے کہ جب آپ مدینہ آئیں گے تو میں آپ کو اپنی کتاب ’عقیدۃالمؤمن‘ دوں گا۔جب وفد چلا گیا تو میں نےشیخ ابو بکر جزائری رحمہ اللہ کو ایک لیٹر لکھا کہ میں نے کچھ دیر پہلےجامعہ اسلامیہ میں داخلے کے لیے اپنے کاغذات بھیجے تھے ،لیکن میرا داخلہ نہیں ہوا لیکن میرا بہت شوق ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ اپنے کاغذات مجھے بھیج دیں، میں اپنا تزکیہ (سفارش) لگا کر وہاں جمع کروا دوں گا۔ بعد میں جامعہ اسلامیہ مدینہ کی طرف سے جامعہ سلفیہ میں ایک لیٹر آیا کہ ، آپ جامعہ میں داخلہ کروانے کے لیے اچھے اور لائق طالبعلموں کے نام دیں، تو ان میں میرا نام بھی تھا۔
جب ہم مدینہ منورہ گئے، اور انٹرویو کے لیے بلایا گیا، اور انٹرویو لینے والا رجسٹر میں میرا نام تلاش کررہا تھا، کہ اچانک میں نے اپنا نام رجسٹر میں دیکھا ،اور نام کے نیچے لکھا ہوا تھا ،کہ یہ داخلہ شیخ ابوبکر جزائری کی سفارش کی بنا پر ہوا ہے۔میں نے انٹرویو لینے والے سے کہا کہ یہ میرا نام ہے، اس نے سر ہلا کرکہا نہیں ،جب تلاش کرتے کرتے جامعہ سلفیہ کے طلباء کی لسٹ آئی تو پھر اس نے میرا انٹرویو لیا۔
1980 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں، میں نے کلیہ الشریعہ میں داخلہ لیا ، کلیہ سے فراغت کے بعد ماجستیر میں داخلہ کی کوشش کی، کلیہ شرعیہ میں چونکہ سعودی طلبہ کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے اور ان کو ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے داخلہ نہ ہوسکا۔
بعد میں، جب میرا امارات، شارجہ آنا ہوا، تو ہم دو تین ساتھیوں نے لبنان یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے متعلق معلومات حاصل کیں، لیکن فیسز وغیرہ کے لیے وسائل نہ ہونے کے سبب ارادہ موقوف کردیا۔

سوال:آپ کے اساتذہ اور شاگردوں میں کون کون سے نام آتے ہیں؟

جواب:میرے اساتذہ میں سے سب سے پہلے استا ذ ،مولانا عبدالقیوم صاحب رحمہ اللہ ہیں، جن کا ناروکی نزد پتوکی میں مدرسہ تھا، یہ میرے ابا جی کے بھی استا د تھے ۔اسی طرح حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ ، اورمولانا احمد الله رحمہ اللہ ، جو کہ مو لانا عبد العزیز علوی حفظہ اللہ کے والد تھے ۔
او رمدینہ میں اہم اساتذہ میں شیخ ابو بکر جزائر ی رحمہ اللہ، اور شیخ عبد الرؤوف لبد ی رحمہ اللہ ہیں۔
شیخ عبدالرؤوف یہ نحو کے استا ذ تھے، انتہائی شریف ، اور باذوق انسان تھے۔ اپنی زبان پر کبھی عامی لفظ نہیں لاتے تھے، صرف فصیح زبان ہی بولتے تھے ۔ ان سے ہم نے آخری کلاس میں نحو پڑھی تھی ۔ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ کلاس میں سب کو نام لے کر بلاتے تھے، اور سوال کیا کرتے تھے۔ابتدا میں مجھ سے بھی سوال کرتے تھے، لیکن بعد میں مجھ سے سوال نہیں کرتے تھے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اسے نحو اچھی طرح آتی ہے۔
جب ہمارا پہلی فصل کا امتحان ہوا، اور پہلی فصل کے کل 40نمبر ہوا کرتے تھے، میرے 40 نمبروں سے 39 نمبر آئے ،پہلی فصل کے بعد کچھ چھٹیاں ہوا کرتی تھیں۔چھٹیوں کے بعد جب دوسری فصل کی کلاسز شروع ہوئیں، تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ عبدالرؤوف کتنے نمبر لیے؟ میں نے کہا 39 ،تو کہنے لگے کہ 40 نمبر کیوں حاصل نہیں کیے!کہاں غلطی ہوئی؟ میں نے جوابا کہا مجھے علم نہیں،کہنے لگے کہ شاید صرف میں غلطی ہوئی ہو، اور صرف ہمیں ایک مصری دکتور پڑھاتے تھے۔ ان کے جامعہ کے مجلہ میں نحو سے متعلق مضامین بھی چھپتے تھے، جو بعد میں کتابی شکل میں چھپے، تو انہوں نے مجھے خصوصی طور پر یہ کتاب بطور تحفہ عنایت فرمائی۔
اسی طرح ایک اور استاد تھے، شیخ ربیع، ان سے میں نے کلاسز میں تو نہیں پڑھا، البتہ ان کے دورہ حدیث میں ایک مرتبہ شرکت کی تھی۔
امارات میں ايك مختصر سی ملاقات، شیخ البانی رحمہ اللہ سے بھی ہوئی ۔ میرے جاننے والے ایک سلفی تاجر تھے، جن سے میں نے کہا کہ میں شیخ البانی سے ملنا چاہتا ہوں، ایک دفعہ شیخ البانی ہمارے علاقے میں ایک باغ میں تشریف لائے، تو انہوں نے مجھے وہاں لے جانے کے لئے اپنے بھائی کو بھیجا ۔جب میں اس مجلس میں حاضر ہوا، تو شیخ درس دے رہے تھے، جب درس سے فارغ ہوئے، تو میں نےعرض کی کہ شیخ محترم میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا: تھوڑا انتظار کرلیں۔ جب سب لوگ چلے گئے، تو انہوں نے پوچھا کہ سوال کرنے والا کدھر ہے؟ میں نے لکھے ہوئے سوالات پڑھ کر شیخ کو سنائے۔
شيخ کہنے لگے کہ آپ ان کے جوابا ت شفوی لینا چاہتے ہیں یا تحریری؟ میں نے عرض کیا کہ تحریری ۔ تو وہ کہنے لگے اپنے یہ سوالات شیخ محمود عطیہ کو دے دیں۔ میں نے سوالات ان کے حوالے کردیے،اور ان سے ان کا نمبر بھی لے لیا ۔ کچھ دنوں بعد میں نےان کو فون کر کے پوچھا ،کہ میرے سوالات کا کیا بنا ؟تو وہ کہنے لگے: شیخ کافی مشغول رہے تھے اس لیے وہ سوالات کے جوابات دئیے بغیر واپس چلے گئے۔ بہرصورت شیخ البانی رحمہ اللہ سے میری یہ ایک ملاقات ہوئی ۔اس کے بعد دوسری ملاقات جو مدیر اوقاف عجمان-عرب امارات کی ایک ریاست-کے گھر میں ہوئی ۔ میں نے شیخ سے سوال کیا”لا أصل له”سے محدثین کی کیا مراد ہوتی ہے؟ تو انہوں نے جوابا کہا کہ اس سے وہ دو معنے مراد لیتے ہیں ،ایک یہ کہ اس کی کوئی سند نہیں، اور دوسرا یہ کہ “لاصحة له” یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
شاگردوں کے بارے میں یہ ہے، کہ میں نے جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہونے کے بعد، پاکستا ن میں پڑھایا نہیں۔ صرف ایک سا ل شیخ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ کے مرکز میں پڑھایا تھا۔ ویسے جو میرے کلاس فیلو تھے وہ میرے شاگرد بھی ہیں، کیونکہ وه نحو وغیرہ مجھ سے ہی سمجھا کرتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ بعض بلتستانی طلبہ نے الگ سے پڑھنا شروع کردیا، کہ ہم پنجابیوں سے کیوں پڑھیں،لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے دوبارہ مجھے ہی پڑھانے کو کہا، کہ ہمیں کسی اور کی سمجھ نہیں آتی۔
اس کے علاوہ عرب ممالک میں ،کویت کے اندر میرے کئی ایک کویتی اور مصری شاگرد ہیں، جن میں کچھ سیریا یعنی شام سے تعلق رکھنے والےبھی ہیں۔ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، جن کا تعلق فلسطین سے ہے، جو مجھ سے روضۃ الناظر پڑھ رہے ہیں۔ کویت سے ایک مصباح نامی میگزین شائع ہوتا ہے، جس میں، میرا تعارف چھپا تھا، جس کی وجہ سے بعض ممالک سے لوگوں نے رابطے کیے۔ غزہ، فلسطین سے ایک صاحب تھے، انہوں نے میرا تعارف پڑھ کر ، کویت کے اپنے بعض دوستوں کی میری طرف رہنمائی کی، اور انہوں نے مجھ سے پڑھا بھی، جن میں سے ایک آج کل کویت اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔
اور شارجہ میں میرے بعض لوکل شاگرد وں کے علاوہ تین مختلف ممالک سے بھی تھے، جو وزارت تعلیم میں مدرس تھے،جن میں سے ایک کا تعلق فلسطین سے ،دوسرے کا تعلق مصر، اور تیسرے کا تعلق شاید اردن یا شام سے تھا۔

سوال:شیخ محترم آپ کو درس و تدریس سر انجام دیتے ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟

جواب: درس و تدریس کا دورانیہ تقریبا35،36 سال پر محیط ہے۔جب میں شارجہ میں گیا تو شروع میں دو ماہ عربی میں خطبہ دینے کی مجھے ذمہ داری سونپی گئی اور ایک خطبہ میں نے اپنی پہلی مسجد میں عربی میں دیا جس کی وجہ کسی عذر کی بنا پر خطیب کی معذرت تھی۔دوسرے دن جب خطیب سے ملاقات ہوئی تو خوشی سے کہنے لگے لوگوں نے آپ کے خطبہ کی تعریف کی ہے میں نے کہا مثلا کون کون؟ تو کہنے لگے کہ عمر مِدفع وغیرہ اور عمر مدفع اُس وقت شارجہ اوقاف کے مدیر تھے۔
جب میں کویت آیا ، تو اپنی مسجد میں عربی میں خطبہ کی ذمہ داری لگی۔ وزارت کی طرف سے خطبہ لکھا ہوا آتا تھا۔ مگر عجیب اتفاق ہوا کہ خطبہ لیٹ ہوگیا،اور اس وقت میرے پاس کتاب بھی نہ تھی، میں نے سوچا کہ کیا کروں ؟ ذہن پر زور دیا، اور اپنی طرف سے ہی خطبہ دیا،اور خطبے کا عنوان “کیف نستقبل رمضان” تھا کیونکہ رمضان قریب تھا اور وزارت کے خطبے کا بھی عنوان یہی تھا۔ جب اتوار کو خطبہ آیا، تو ا س میں بہت ساری باتیں وہی تھیں، جو میں نےخطبہ میں بیان کی تھيں ۔
عمومی دعوت و تبلیغ سے ہٹ کر، کئی ایک کتابوں کی تدریس کے حلقے بھی ہوتے ہیں۔خطبہ کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوتی ہیں۔جس میں الحمدللہ لوگ دلچسپی اور ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں۔
اسی طرح احیاء التراث کی ’لجنة القارة الهندية‘کی طرف سے سمندر کنا رے جمعرات کو عربی درس ہوتا ہے، کبھی کبھار اس درس میں مجھے بھی دعوت دی جاتی ہے۔ ایک دفعہ میرا وہاں درس تھا تو وہاں اوقاف کے وکیل الشؤون الثقافیہ بھی آئے ہوئے تھے، درس کے بعد ایک کویتی دوست نے کہا شیخ،وکیل شئون ثقافیۃ بھی یہاں موجود ہیں ان سے ملاقات کرو،جب ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے، میں نے کہا کہ شیخ میں وزارت میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مقصد یہ تھا کہ انہیں اپنی بعض کتب دوں،دوسرے دن جب وزارت گیا تو وہ خوش ہوئے اور جب آنے لگا تو وہ میرے ساتھ دروازے تک آئے دروازہ کھولا اور مجھے الوداع کہا۔
بعد میں کویت شہر میں اردو میں مستقل خطبہ شروع ہوا۔ اور اپنی مسجد میں میرے چار درس ہوتے ہیں،دو عربی اور دو اردو میں ،اور عربی درسوں میں بیس سے پچیس تک لوگ ہوتے ہیں، جن میں اکثریت مصریوں کی ہوتی ہے۔
یہ تمام دروس عشاء کے بعد ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن عصر کے بعد تقریبا بیس منٹ کا درس ہوتا ہے،دس منٹ پہلے عربی میں اور پھر دس منٹ اردو میں، جس میں نماز اور دیگر اہم مسائل سے متعلق گفتگو ہوتی ہے۔
عرب امارات شارجہ میں اپنی مسجد کے علاوہ دوبئی اور ابو ظہبی میں بھی درس ہوئے۔اسی طرح شارجہ ٹی وی میں متعدد بار اردو پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ۔
ایک مرتبہ شارجہ اوقاف کی طرف سے مختلف مساجد میں اردو میں درس دینے کی ذمہ داری سونپی گئی، ایک دفعہ ایک مسجد کے درس میں ،میں نے کہا کہ غوث اعظم صرف اللہ ہے،اللہ کے علاوہ کوئی غوث اعظم نہیں، تو ایک پنجابی اس قدر آگ بگولا ہوا کہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس درس میں اب کبھی شریک نہیں ہوں گا۔

سوال: شیخ محترم آپ نے شادی کب کی ؟ اور اولاد کتنی ہے؟

جواب:میری شادی 24 دسمبر 1978 کو ہوئی تھی ۔ اور محرم کے مہینے میں ہوئی تھی، تاکہ لوگوں میں رائج ایک غلط رسم کا رد ہو کہ محرم میں شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔ بحمد اللہ میری چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔بیٹے نے مڈل کرنے کے بعد شارجہ میں حفظ کیا، اور اس کےبعد جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں دینی تعلیم مکمل کی ہے ۔ایک بیٹی ہے اس نے بھی حفظ کیا ہے، اور ایک دفعہ کویت میں حسن قرأت کا مقابلہ تھا، تو اس کی مشرفہ(نگران) نے کہا کہ تم حصہ کیوں نہیں لیتی ہو؟ اس نے حصہ لیا، او رکویت بھر میں دوسری پوزیشن آئی۔ اسی طرح ایک اور مقابلہ ہو ا، جس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اور سب سے چھوٹی بیٹی کی ساری کی ساری تعلیم عربی میں ہے۔بلکہ ا س کی عربی زبان ایسی ہے، جیسے کہ مادری زبان ہو۔ اس نے بی اے كرنے کے بعد، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قسم الشریعۃ میں داخلہ لیا ،مگر بعض وجوہ کی بنا پر وہ کلاس شروع نہ ہوسکی ،اور اب قسم اصول دین میں داخلہ بھیجا ہوا ہے۔
سوال:کیا آپ سوشل میڈیا فیس بک، ٹویٹر وغیرہ استعمال کرتے ہیں؟
جواب:میں واٹس ایپ کےعلاوہ کوئی چیز استعمال نہیں کرتا ۔ ان کاموں میں مصروف ہوجاؤں تو میرا علمی کا م رہ جاتا ہے ۔

سوال:اپنی تصنیفات وتالیفات سے آگاہ فرمائیں! نیز عصر حاضر میں ایک مصنف کے لیے کیا کیا مشکلات ہیں؟

جواب:پہلے عربی کتب کا تذکرہ کرتا ہوں۔ سب سے پہلے عربی میں جو کتاب چھپی، وہ ہے’ صفة التسمية عند الأکل والشرب وغیرهما من الأمور ‘ یہ 1994 میں دار الفتح شارجہ سے چھپی ۔جب یہ کتاب میں نے طباعت کے لیے دی، تو وہ بہت متاثر ہوئے ،اور مجھے مستقل” دار الفتح” میں کام کرنے کی دعوت دی، لہذا میں نے اوقاف کےساتھ ساتھ دار الفتح میں بھی کام کیا ہے۔ اس کتاب کا اصل سبب یہ ہے کہ میں نے مشہورِ زمانہ کتاب “پیارے رسول ﷺکی پیاری دعاؤں” کی تخریج کی ، جس میں مولانا عطاءاللہ ؒ حنيف نے لکھا ہے، کہ “بسم اللہ” پوری پڑھنی چاہیے۔جس میں انہوں نے” مشکوۃ” اور” عون المعبود” کا حوالہ دیا ہوا تھا، “مشکاۃ “میں تو ایسی کوئی حدیث نہیں ملی، جس میں “بسم اللہ” پوری پڑھنے کا ذکر ہو۔البتہ صاحبِ “عون المعبود “نے”بسم اللہ” پوری پڑھنے پر بہت زور لگایا ہے ۔اس کی اور دیگر کتب کی تخریج کرتے ہوئے، میرے سامنے ” بسم اللہ” کے بارے میں جو بھی حدیث گزرتی، میں اس کو اپنے پاس محفوظ کرلیتا ۔ اس طرح سے “صفۃ التسمیۃ ” کی تالیف معرض وجود میں آئی ۔جب مجھےپہلی دفعہ “لجنة القارة الهندية” کی طرف سےـیہ جمعیئہ احیاء التراث کی ایک فرع ہے-اس موضوع پر عربی میں درس کی دعوت دی گئی۔ جب یہ درس ختم ہوا تو ’’لجنة‘‘ کے نائب رئیس کہنے لگے: میں شیخ ابن عثیمین کے پاس پڑھتا رہا ہوں، جب وہ کھانا کھاتے ،تو پوری “بسم اللہ” پڑھا کرتے تھے ۔مجھے بہت تعجب ہوا۔ بعد میں میرے ایک شاگرد نے بھی یہی بتایا، تو میں نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی ’الشرح الممتع‘ اور ’شرح ریاض الصالحین‘ کا مراجعہ کیا تو انہوں نے ان کتب میں بھی کئی مقامات پر پوری “بسم اللہ”اور بعض مقامات پر صرف “بسم اللہ ” ذکر کی ہے۔ابن عثیمین کی طرح ابن قیم بھی یہی کہتے ہیں کہ پوری”بسم اللہ”پڑھی جائے اور میں نے اپنی اس کتاب کے نئے ایڈیشن میں ان دونوں کے دلائل کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔یسر اللہ طباعتہ۔
میرا دوسرا عربی کام ’جماع العلم ‘ امام شافعی رحمہ اللہ کی کتا ب ہے ۔اس میں انہوں نے انکار حدیث اور حجیت حدیث کے متعلق شاندار لکھا ہے ، جس میں بہت مفید چیزیں ہیں۔ میں نے اس کی کتاب کی تحقیق و تخریج کی ہے، اور یہ بھی دار الفتح سے 1995 میں چھپی ۔
اس کے بعد “القواعد النورانیہ الفقہیہ” از شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہے، یہ بھی میری تعلیق وتخریج کے ساتھ 1996 میں دارالفتح سےمطبوع ہے ۔ بعد میں ریاض سے ایک دکتو ر ہیں، احمد محمد خلیل،انہوں نے بھی اس پر کام کیا، اسی طرح ایک اور مصری شیخ ہیں، دونوں نے میرے کام کا تذکرہ اور تحسین کی ۔ میں نےاس کے مقدمے میں یہ رائے قائم کی تھی کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو خود سے تالیف نہیں کیا، بلکہ یہ ان کی مختلف بحوث ، یا ان سے پوچھے گئے سوالات تھے، جسے کسی نے کتابی شکل دے دی ۔
اسی طرح تفسیر ابن کثیر دار الفتح سے طبع ہوئی، اور یہ 20ہزار کی تعداد میں چھپنی تھی، لیکن جب 5 ہزار نسخے چھپے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہو گے جس کی وجہ سے باقی نسخ کی طباعت رک گئی۔اور اس کی تخریج و تعلیق کی شروع سے لے کر آخر تک نظر ثانی کی ذمہ داری ادارہ کی طرف سے مجھے سونپی گئی ،اور یہ کتاب آٹھ جلدوں میں مطبوع ہے۔
میری عربی کتب میں سے ایک اور کتاب ’أحسن المقال فی تخریج حدیث کل أمر ذی بال‘ ہے۔ یہ2001 میں “دار الفرقان”عجمان -جو عرب امارات کی ایک ریاست ہے -وہاں سے چھپی،کچھ سال قبل میں نے اس کا دوسرا ایڈیشن تیار کیا جس میں مفید اضافے ہیں ،اس کے ساتھ حافظ سخاوی کا ایک رسالہ اسی موضوع پر ہے جو مختصر رسالہ ہے جس کا نام “تحریر المقال فی تخریج حدیث کل أمر ذی بال “ہے، اس پر بھی میں نے تخریج و تعلیق کا کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک رسالہ علامہ محمد جعفر الكتاني کا ہے جس کا نام ” الأقاويل المفصلة لبيان حال حديث الابتداء بالبسملة” ہے، اس پر بھی میں نے تخریج و تعلیق کا کام کیا ہے۔ اور اب یہ تینوں رسالے ایک ساتھ وزارۃ اوقاف کویت سے طبع ہورہے ہیں۔رمضان کے شروع میںـ اس سال 1443ھ-میں وزارت سے مجھے فون آیا کہ یہ تینوں کتب مہینے کے اندر اندر طبع ہوجائیں گئی،مگر ابھی تک طبع نہیں ہوئیں ۔ان شاءاللہ عنقریب طبع ہوجائیں گی۔
احسن المقال کا پہلا ایڈیشن نیٹ پر موجود ہے۔جو اس سے استفادہ کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے۔
اس کے بعد امام شافعی کی کتاب “الرسالہ” پر بھی میں نے کا م کیا۔ جو کہ دار الفتح شارجہ سے 2007 میں شائع ہوا ۔ اس پر کام کرنے کا ایک سبب تو یہ ہے کہ دار الفتح والوں نے کہا کہ آپ اس پر کام کریں، دوسرا سبب یہ تھا کہ اس کتاب کا اصل موضوع ’اصول فقہ‘ ہے۔ بلا شبہ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نےاپنی طباعت ِ”رسالہ” میں ’تحقیق النص‘ پر تو بہت زور دیا ہے، لیکن اصول فقہ پر انہوں نے توجہ نہیں فرمائی۔جبکہ “رسالہ” کا اصل موضوع “اصول فقہ” ہے بلکہ “اصول فقہ”میں لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب ہے اور اب اپنے ایک کویتی شاگرد کے اصرار پر، اس کا جدید ایڈیشن بھی تیار ہے، جو کہ پہلے سے بھی مفید ہوگا۔ ان شاءاللہ
یہاں ایک چیز قابل ملاحظہ ہے وہ یہ کہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ صاحب نے ،اپنے ایک ویڈیو کلپ میں شیخ احمد شاکر والے ایڈیشن کا ذکر کیا، اور اس کی کافی تعریف کی ،اس کے بعد میری ’طباعت’ کا بھی ذکر کیا، لیکن اس کے بارے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ شاید انہوں نے اس ایڈیشن کو پڑھا نہ ہو، اگر پڑھا ہوتا تو ان کو معلوم ہوتا ،کہ اس میں وہ فوائد ہیں، جو شیخ شاکر کی طباعت میں نہیں ہیں۔کم از کم ان دونوں کے مقدمے کا مقارنہ کرلیتے۔
اسی طرح ایک کتاب ہے” فهرس الأحاديث والآثار الواردة فی کتاب المجروحين” لابن حبان‘ یہ کئی سال قبل مکہ سے چھپی ہے۔یہ ایک اعتبار سے منفرد فہرست ہے، کیو نکہ کتاب میں راویوں کے ناموں یا احادیث میں کوئی غلطی وغیرہ تھی، توحاشیے میں اس پر تنبیہ کردی گئی ہے۔
اسی طرح عربی کتب میں سے، میری ایک کتا ب ہے ’حكم رفع الأیدی في دعاء خطبة الجمعة‘ہے ۔ یہ 2012 میں مکتبہ امام ذہبی کویت سے چھپی ۔چونکہ اس میں بہت سا ری علمی بحوث تھیں، جو کہ عام آدمی کے لیے سمجھنا مشکل تھیں ، اس لیے میں نے اس کا اختصار کیا،جو کہ ’ مختصرحكم رفع الأیدی في دعاء خطبة الجمعة‘ کے نام سے 2015ء میں وزارةِ اوقاف سے چھپی ہے ۔
“روضة الناظر لابن قدامہ ” کی بھی میں نے تخريج وتعليق کی ہے۔ جو 2013ءمیں دارغراس کویت سے چھپی۔ بعض احباب نے بتایا ،کہ اسے جامعہ اسلامیہ میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی طرح سعودیہ کے “الزاد” ٹی وی چینل نے اس پر حوصلہ افزاتبصرہ کیا ۔
میرا ایک رسالہ ، جو 2015ء میں وزارتِ اوقاف کویت کی طرف سے بعنوان : ’تنویر العینین بتخریج ما یقال بين السجدتین‘چھپا. اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے ، کہ اس مقام پر صحیح دعا ’’رب اغفرلي رب اغفرلي رب اغفرلي‘‘ہے۔میرے پاس یہ بحث اردو میں تھی، ایک کویتی دوست کی فرمائش پر، اسے عربی میں منتقل كيا گیا۔2012 میں کویت میں ایک اور رسالہ بعنوان:’هل حج يوم الجمعة أفضل من سبعين حجة ‘ چھپا۔ جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ بات بے اصل اور بے بنیاد ہے۔
مزید کچھ کتب ہیں، جو ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک کا نا م ’مصباح الزجاجة في تخريج أحاديث ومسائل خطبة الحاجة‘ ہے۔یہ رسالہ282 صفحات پر مشتمل ہے ۔اس موضوع پر اس قدر مفصل کتاب پہلے موجود نہیں ہے ۔ اس میں نص ِخطبہ، اس کے الفاظ کی تحقیق ،اور دیگر علمی مباحث موجود ہیں۔امام البانی رحمہ اللہ کا بھی اس موضوع پر ایک رسالہ ہے ،لیکن وہ مختصر سا ہے۔ ایک حنفی عالم دین عبدالفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ، شیخ البانی کےرد میں ایک رسالہ لکھا تھا، جس کا عنوان ہے: “خطبة الحاجة ليست سنة في مستهل الكتب” ۔ میری مذکورہ کتاب میں اس رسالے کا مفصل رد بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح شیخ بكر أبو زيد رحمہ اللہ کا بھی اس حوالے سے -خطبہ جمعہ کے حوالے سےـ عجیب سا موقف ہے ۔میں نے اس کتاب میں ان کے دلائل کا بھی مناقشہ کیا ہے ۔ ریاض مکتبہ معارف کے مالک (رحمہ اللہ) مجھ سے تعلقِ خاطر رکھتے تھے، اور کہا کرتے تھے کہ: “أنت تعرف أنی أحب عملك” . وہ میرے اس رسالے کو چھاپنا چاہتے تھے، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ان سے اتفاق نہ ہوسکا ،ابھی میرے بعض شاگردوں نے کہا ہے ہم اسے چھاپیں گے۔
اس کے علاوہ “بلال مؤذن رسول اللهﷺ”یہ رسالہ بھی وزارت اوقاف میں چھپنے کے لیے تیار تھا، لیکن کرونا کی وجہ سے ابھی تک طبع نہیں ہوسکا۔ غیر مطبوعہ کتابوں میں سے “رفع الالتباس عما يدعي يوم القيامة به الناس” اور”أبو شحمة عبدالرحمان الأوسط بن عمر بن خطاب وحقيقة قصته في شرب الخمر والزنا‘ وغیرہ ہیں ۔ مؤخر الذکردونوں رسالے عربی ، اردو دونوں زبانوں میں ہیں ۔
دادا جان کی کتاب ” البشرى بسعادة الدارين بترجمة سيد نذير حسين” کی تخریج اور تعلیق کی ہے۔ اسی طرح شیخ ابو بکر الجزائری رحمہ الله کی کتا ب ’ منهاج المسلم ‘ کی بھی میں نے تخریج اور تعلیق کی ہے، جس کا نام ہے: “المعلم في تخريج أحاديث وآثار منهاج المسلم”ہے۔میرا ایک عربی رسالہ ” أذكار الصباح والمساء الصحيحة الثابته مع التنبيه على غير الصحيحة”کے موضوع پر بھی ہے جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے ۔اسی طرح دادا جان کا ایک رسالہ “أکمل البيان فی شرح حدیث النجد قرن الشیطان”ہے اس رسالےمیں دادا جان نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نجد سے مراد سعودیہ کا نجد ہے جس سے محمد بن عبدالوھاب کا فتنہ طلوع ہوا ،انہوں نے اس میں احادیث اور شراح حدیث کے اقوال سے ثابت کیا ہے، کہ اس حدیث میں نجد سے مراد عراق کا نجد ہے۔ اور یہ رسالہ عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ہے۔اور میں نے اس پر عربی اور اردو، دونوں زبانوں میں کام کیا ہے ۔اسی طرح میرا ایک رسالہ “فضل الصلاة في المساجد الثلاثة” ہے،لیکن اس کو فائنل كرنے کا ابھی تک موقعہ نہیں مل سکا ۔
اردو کتب میں سب سےپہلے “صلاۃ الرسول” کی تعلیق وتخریج ہے ۔جب یہ چھپی اور اللہ نے اسے بہت قبولیت سے نوازا، تو دوسرے ایڈیشن میں میں نے اس کا نام رکھ دیا “القول المقبول في تخريج وتعليق صلاة الرسول” ۔اس کے حوالے سے ایک اہم با ت یہ ہے، کہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازهری رحمہ اللہ جو جامعہ سلفیہ بنارس ہند کے وکیل تھے ۔ انہوں نے اس پر تبصره کرتے ہوئے ایک عمدہ بات یہ بھی لکھی: کہ ہمارے اہل حدیث علماء کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر کس عالم سے کوئی غلطی ہو گئی، تو واضح طور پر اس کی تردید کرتے ہیں،مقلدین کی طرح نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیں، یا چھپا دیں ۔
اس کتاب کے الحمدللہ کئی ایڈیشنز چھپ چکے ہیں ۔ اور جب احناف نے “صلوۃ الرسولﷺپر القول المقبول کی وجہ سے اعتراضات کیے، تو اس کے بعدمیں نےان کے رد میں “احناف کی چند کتب پر ایک نظر” کتاب لکھی ۔اسی طرح میری اپنی ایک کتاب ہے’مسنون نماز‘ جب میں نے اسے تحریر کیا، تو ہمارے ایک فاضل دوست جو مدینہ یونیورسٹی سے ہی متخرج ہیں، اور آجکل شارجہ اوقاف میں امام و خطیب ہیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ اس کو ایک نظر دیکھ لیں۔ جب انہوں نے اسے دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوئے، اور کہنے لگے کہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں ۔تو میں نے کہا: کیا ضرورت ہے، عربی میں تو پہلے سےہی شیخ البانی کی کتاب موجود ہے۔انہوں نے کہا پھر کیا ہوا۔میں نے کہا کہ آپ کی بات صحیح ہے کیونکہ جوکچھ اس میں ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔مثال کے طور پر اس میں، نماز کی اہمیت ، سجدہ سہو اور سنتوں کے بارے میں مسائل ہیں۔ یہ سب شیخ البانی کی کتاب میں نہیں ہے ۔ پھر انہوں نےاس کا ترجمہ بھی شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے مکمل نہیں کر سکے ۔
یہاں کویت میں ایک صاحب جامعہ سلفیہ سے متخرج تھے، انہیں یہ کتاب، پڑھنے کے لیے دی، تو وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس کا انگلش میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں ۔اس کے بعد ان سے رابطہ نہیں رہا، اسی طرح کویت مصباح رسالہ کے ایڈیٹر نے موبائل پر میسج بھیجا ، کہ میں آپ کی نماز پر کتاب کو دو تین بار پڑھ چکا ہوں۔ کیا ہی خوب ہو ، اگر آپ مکمل فقہ پر ایک کتاب ترتیب دیں! اس کتاب کے خاتمہ کو ایک دوست کی فرمائش پر الگ سے بھی شائع کیا تھا۔
اسی طرح میری ایک کتاب ’مسنون تسمیہ ‘ ہے۔ اس کا عربی میں بھی ترجمہ ہے،وہ “صفة التسمية عند الأكل والشرب وغيرهما من الأمور” کے نام سے ہے،اور یہ دار الفتح شارجہ سے 1994ء میں چھپی۔ اس کتاب کے چھپ جانے کے بعد شارجہ نومبر میں کتابوں کی نمائش لگی، اور یہ نمائش ہر سال لگتی ہے، اور یہ پورے خلیج میں سب سے بڑی نمائش ہے، تو اس نمائش میں جدہ سے مکتبۃ الصحابۃ بھی شریک تھا ،ابھی اس کی ایک شاخ شارجہ میں بھی ہے ،میں نے اس کتاب کا مکتبۃ کے مدیر کو نسخہ دینا چاہا ،تو میرے نسخہ دینےسے پہلے ہی وہ اس کتاب کو پڑھ چکے تھے، تو مجھ سے کہنے لگے کہ یہ کتاب بہت عمدہ ہے، ہم اس کو جدہ سے چھاپنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح دادا جی کی ایک کتاب ہے،مقیاسِ حقیقت‘ ۔یہ اصل میں عمر اچھروی کی کتاب “مقیاسِ حنفیت” کارد ہے۔ اس کی بھی تخریج و تعلیق میں نے کی ہے، جس کی کمپوزنگ ہوچکی ہے ۔اسی طرح دادا جی کا ایک رسالہ ہے ’فلاح الدارین‘ یہ بےنمازی کے حکم کے بارے میں ہے ،اس کی تخریج اور تعلیق بھی کی تھی۔ یہ 1992 میں چھپا تھا ،اب دوبارہ اس پر تخریج و تعلیق کا کام کیا گیا ہے، لیکن وہ ابھی تک چھپا نہیں ہے ۔اسی طرح دادا جی کاایک رسالہ ہے’فرقہ ناجیہ‘۔جب دادا جی نے’نتائج التقلید ‘لکھی، تو اس کا جواب دو دیوبندی علما نے لکھا۔ ایک شیخوپورہ کےتھے انہوں نے ’السهم الحدید ‘ کےنام سے، او ردوسرے سرفراز گکھڑوی صاحب تھے، جنہوں نے مقام ابو حنیفہ کے نام سے کتاب لکھی ۔ پھر دادا جی نےمقام ابو حنیفہ کا جواب ’مقام اہلحديث ‘کے نام سے لکھا۔ پھر سرفراز گکھڑوی صاحب نے ’الطائفہ المنصورہ ‘کے نا م سے”مقام اہلحدیث” کے رد میں ایک رسالہ لکھا۔ تو دادا جی نے ان کے رد میں یہ رسالہ ’فرقہ ناجیہ‘ لکھا۔ اورمعلوم ہوتا ہے، کہ یہ دادا جی کی آخری کتاب ہے ۔اس کا ایک ایڈیشن میری تخریج و تعلیق سے چھپا تھا ،مگر تخریج و تعلیق آخر میں تھی۔اب اس کا دوسرا ایڈیشن تیار ہے ،جس پر ہر حدیث کی تخریج اور تعلیق اپنے مقام پر ہے۔
دادا جی کی ایک کتاب ہے ’عقيدة حیاۃ النبیﷺ‘ اس پر بھی تخریج وتعلیق کا کام ہوچکا ہے ۔ان کا ایک رسالہ ’دین اسلام کی تکمیل ‘ہے۔یہ اصل میں ان کا ایک مجلہ “الرشاد” کراچی، میں چھپنے والا مضمون تھا۔جسے میں نے ایک رسالہ کی شکل دے د ی، اور ساتھ تخریج وغیرہ بھی کردی ۔ دادا جی کا ایک اور رسالہ ہے ’رکعات قیام رمضان من اقوال اصحاب النعمان‘ اس میں انہوں نے احناف کے بڑےبڑے دس علماءکےاقوال نقل کیے ہیں، کہ تراویح کی نماز آٹھ رکعات ہی سنت ہیں۔اس کی بھی تخریج وتعلیق کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اسی طرح مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ کتاب’نخبة الاحاديث ‘ کی بھی میں نے’ البحث الحثیث في تخريج نخبة الأحاديث‘ کے نام سے تخریج و تعلیق کی ہے۔ وللہ الحمد۔

سوال:عصر حاضر میں ایک مصنف کے لیے کیا کیا مشکلات ہیں؟

جواب:عصرحاضر میں ایک مصنف کے لیے بہت سارے مسائل ہیں، کیونکہ کتاب آج کل ترجیحات میں نہیں ہے۔ زياده لوگوں کی توجہ پی ڈی ایف پر ہی ہوتی ہے۔ ہم سے تو اس سے پڑھا ہی نہیں جاتا، اور نہ ہی ہماری تسلى ہوتی ہے۔
مصنفین کے لیے ایک اہم پیغام یہ ہے کہ جب کسی کتاب سے کوئی حدیث وغیرہ نقل کریں ۔ تو اسی کتاب کا حوالہ دیں جس سے انہوں نے اسے نقل کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اس میں کو ئی غلطی ہوئی، تو نقل کرنے والے پر کوئی اعتراض نہیں آئے گا ۔اگر اس نے ایسا نہ کیا تو پھرناقل پر اعتراض آئے گا کہ اصل کتاب میں تو ایسے نہیں ہے۔مثال کے طور پر ایک حدیث ہے: كان يوتر بخمس لايجلس إلا في آخرهن‘اس حدیث کو بعض علماءنے بخاری و مسلم کی طرف منسوب کیا ہے، جیسا کہ صاحب” مشکوۃ “ہیں ۔ حالانکہ یہ حدیث صرف مسلم میں ہے۔ جبکہ صاحب” مشکوۃ” کو اس حوالے میں وہم ہوا، بلکہ ابن حجر نے بھی اسے بخاری و مسلم دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ “صلاۃ الرسول” میں مولانا صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ نے بھی صاحبِ “مشکوۃ” پر اعتماد کرتے ہوئےاس کے لئے بخاری و مسلم کا حوالہ دیا ہے، جیسا کہ میں نے ’القول المقبول‘ میں وضاحت کی ہے کہ یہ در اصل صاحب “مشکوۃ” کا وہم ہے۔ اگر بعد میں آنے والے بذات خود بخاری ومسلم دیکھ لیتے، تو یہ غلطی نہ ہوتی، یا پھر مشکوۃ کا حوالہ ساتھ دیتے، تاکہ صاحبِ مشکوۃ کی غلطی ان کی طرف منسوب نہ ہوتی۔ کم ازکم اتنا لکھ دینا چاہیے کہ ’بخاری ومسلم کما فی المشکاۃ‘، یا اس سے ملتی جلتی کوئی عبارت۔

سوال:عربی زبان سے خاص محبت کی کیا وجہ ہے؟کیوں کہ آپ کا اکثر کام عربی میں ہے ؟

جواب: ہر انسان کو عربی سے محبت ہونی چاہیے ۔کیونکہ یہ قرآن و سنت اور ہمارے دین کی زبان ہے۔ سیدنا عمر کا ایک قول ہے :’تعلموا العربية؛ فإنها من دينكم‘۔اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب ’الرسالہ ‘ میں لکھتے ہیں کہ ہر انسان کے لیےضروری ہے، کہ وہ عربی زبان کو اتنا جانتا ہو کہ وہ شھادتین کو ادا کر سکے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’اقتضاء الصراط المستقیم ‘ میں لکھا ہے کہ عربی دین کی زبان ہے ، جس کی معرفت اور جاننا فرض اور واجب ہے، کیونکہ اسلام کو سمجھناضروری ہے ۔اور عربی زبان کےعلاوہ دین اسلام کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ وما لايتم الواجب إلا به فهو واجب.باقی رہی وہ حدیث کہ عربوں سے تین چیزوں کی وجہ سے محبت کرو، کیونکہ میں عربی ہو ں، قرآن عربی ہے ،او راہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی۔تو یہ حدیث ضعیف ہے ۔
یہاں میں ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتا ہوں: جب ہم مدینہ میں پڑھتے تھے، تو حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ حج کے دنوں میں سعودی حکومت کی دعوت پر درس ودروس کے سلسلے میں وہاں آتےتھے۔ ایک روز مسجد نبوی میں شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے ملاقا ت ہوئی،تو انہوں نے کہا کہ آپ نے کل عشا کا کھانا ہمارے ساتھ کھاناہے۔ دوسرے دن جب ہم جا رہے تھے ،تو راستے میں حافظ صاحب مجھے کہنے لگے کہ ہم ان سے کیا بات کریں گے ؟ پھر کہنے لگے: ہم ان سے کہیں گے ’’احبوا العرب لثلاث ‘‘ مجھے پتا تھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن میں ادبا خاموش رہا۔ جب ہم وہاں گئے تو حافظ صاحب نے اپنی بات کا آغاز ہی اس حدیث سے کیا ، تو شيخ کہنے لگے ’’ لم یثبت‘‘ یہ توثابت نہیں ہے ۔ تو پھر مجھے بہت احساس ہوا کہ میں رستے میں ہی ان کو بتا دیتا، تو اتنی بڑی بات نہیں تھی، جتنی اب بن گئی ہے۔
بہرحال پہلے علمائے کرام صحیح و ضعیف کا خیال بہت کم کرتے تھے۔ بعض اوقات میرے ابا جان رحمہ اللہ بعض ایسی حدیث پڑھ دیتے،جو صحیح نہ ہوتی ،میں عرض كرتا کہ اباجان یہ حدیث ضعیف ہے، تو گویا ہوتے کہ ہم کیا کریں؟ ہمیں ایسی احادیث ہی یاد ہیں ۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، اصل میں اس وقت کچھ ماحول ہی ایسا تھا ۔
خیر عربی زبان سے محبت کی ایک وجہ تو یہ تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں شروع سے عرب ممالک میں رہائش پذیر ہوں۔ سعودیہ میں پڑھا، پھر عرب امارات ، پھر کویت ۔ جب میں شارجہ میں تھا، تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا، کہ وہاں میری کتاب ’صفة التسمية عند الأکل والشرب وغیرهما من الأمور ‘ كو دیکھ کر دار الفتح نے مجھے اپنے پاس کام کرنے کی آفر کی، جو میں نے قبول کرلی، اور پھر مسلسل عربی زبان میں کئی ایک کتابوں پر کام کرنے کا اتفاق ہوا، تو یہاں سے میرا رجحان عربی کی طرف ہوگیا۔
جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا، کہ ہمارے مدارس میں عربی کتب پڑھائی تو جاتی ہیں، عربی گرائمر پڑھا ئی جاتی ہے، لیکن عربی تکلم اور تحرير و تقرير سیکھنے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ انگلش کی طرف ہمارے مولوی طبقہ کی بھی توجہ ہے۔ ٹھیک ہے انگلش سیکھنے میں حرج نہیں، بلکہ حسب ضرورت اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ لیکن عربی بھی تو ہمارے دین کی زبان ہے۔ اب کئی مولویوں کو دیکھا ہے ، کہ وہ کوشش کریں گے، کہ وہ انگلش کے الفاظ لائیں، تاکہ انہیں پڑھا لکھا سمجھا جائے۔
بہرحال یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمارے دینی مدارس کواس طرف توجہ دینی چاہیے کہ طلبہ کوعربی تحریر و تقریر سکھائی جائے، اور بول چال کی مشق کروائی جائے۔ بعض نے کہا ہےکہ’تعلم العربية سهل، والتعمق فيه صعب‘ کہ عربی کا سیکھنا آسان ہے،لیکن اس کے اندر گہرائی مشکل ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عربی کتب،عربی گرائمر او ر قواعد پڑھنے والے عربی نہیں بولیں گئے ، تو دوسرا کون بولے گا؟ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اربابِ حل وعقد، اور ذمہ داران کی توجہ اس طرف کردے ، کہ وہ عربی زبان کو عام اور اس کا ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ایک یہ بھی المیہ ہےکہ انگلش میڈیم سکولوں کی طرف ہماری توجہ بہت زیا دہ ہے، وہ مولوی ہوں، یا غیر مولوی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی غیر مسلموں کی ایک سازش ہے ۔آج سے دو تین سا ل قبل ایک ساتھی نے مجھے ایک کلپ بھیجا ،جس میں یہ تھا کہ اٹلی کے ایک پادری کے سامنے کچھ لوگوں نے تشويش كا اظہار کیا کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ، تو اس نے کہا: یہ بتاؤ ان کےـمسلمانوں کےـ زیادہ بچے دینی مدارس میں پڑھتے ہیں، یا عصری سکولوں میں؟ تو انہوں نے کہا کہ سکولوں میں پڑھنے والے زیادہ ہیں۔ دوسرا سوال اس نے یہ کیا کہ جو سکولوں میں پڑھنے والے ہیں، ان میں اکثرانگلش میڈیم پڑھنےوالے ہیں، یا اردو میڈیم میں؟جواب ملا: انگلش میڈیم ۔ اس نے کہا کہ پھر آرام سے سوجاؤ ، یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ بہرصورت یہ بھی ایک سازش ہے، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھےـآمین۔

سوال:شیخ محترم آپ کے دادامعروف عالم دین تھے،تو آپ کے علاوہ بھی ان کا خاندان میں کوئی جانشین بنا؟

جواب:یہاں میں اپنےخاندان کے بارے میں مختصر سا بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارا خاندان اللہ کے فضل سے مذہبی ،اوراہل حدیث خاندان ہے۔ سب سے پہلے ہمارے پردادا اہل حدیث ہوئے تھے ، وہ پانچ بھائی تھے۔ اور پردادا ان میں سب سے بڑےتھے ،ان کا نام جمال ؔالدین تھا ۔ اور وہ اپنی مسجد کے خطیب وامام تھے۔ یہ اللہ تعالی کا فضل ہے ،اوراس نعمت پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں ،کم ہے۔ اورمیں کہا کرتا ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے، کہ مجھ پر اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت کونسی ہے ؟تو میں یہ کہوں گا کہ اللہ تعالی کی مجھ پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے،کہ اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازاہے ۔اور پھر مجھ سے پوچھا جائےکہ اسلام کے بعدسب سے بڑی نعمت کونسی ہے؟ تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں صحیح عقیدہ دیا ہے، اس پر بھی ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے ۔
خیر پردادا جی اہل حدیث ہوگئے، لیکن دیگر بھائی الگ ہی رہے، تو اس طرح ہمارا خاندان بہت چھوٹا سا رہ گیا ۔
پھر دادا جان کل چار بھائی تھے ،اوران میں سب سے بڑے دادا جان تھے ، ان کے بعد جو سب سے بڑے تھے، ان کا نام عبدالعزیزتھا۔اور یہی عبدالعزیزہمارے بچوں کی والدہ کے نانا بھی تھے۔ اور یہ کوٹ ماجھی خاں ضلع قصور میں، مسجد کے امام وخطیب تھے۔ان کی آواز بہت اچھی تھی ، شاعر بھی تھے ۔اسی طرح انہوں نے عیسائیت کے ردمیں کچھ پمفلٹ بھی لکھے۔اور آخر میں کوٹ ماجھی خاں سے منتقل ہوکربھائی پھیرو(پھولنگر ) آگئے، اور وہاں ایک اچھی کشادہ مسجدتیارکروائی ، جو کہ انکی حسنات میں سے ہے۔
ایک دفعہ کوٹ ماجھی خان میں جلسہ تھا، جس میں حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃاللہ علیہ بھی تشریف لائے،تو مولانا عبد العزیز صاحب نے ان کے متعلق کچھ اشعار پڑھے، جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں:

لے آئے تشریف حافظ عبد القادر روپڑی
منا ظرنوں لیندے گھیر نیں
اس دی بھن دیندے نیں کھوپڑی
لےآئے تشریف حافظ عبدالقادر روپڑی

اور تیسرے نمبر پر جو دادا جی کے بھائی ہیں ،ان کا نام عبد الحق ہے ۔یہ میرے حقیقی نانا ہیں۔ اور بچوں کی والدہ کے حقیقی دادا ہیں ۔ یہ بہت اچھے اور حکیم حاذق مانے جاتے تھے۔ زاہد و عابد تھے ۔میرے دادا جی کہا کرتے تھے،ہم سب بھائیوں میں سے سب سے زیا دہ متقی و پرہیز گار عبد الحق ہے۔کبھی کبھار ہمارا بچپن میں نانا جان کے ہاں جانا رہتا، تو رات کو کیا دیکھتے کہ یہ مکان کی چھت پر چلے جاتے،وہاں تہجد پڑھتے اور روتے،اور رو رو کراتناگڑ گڑاتے کہ نیچے آواز آیا کرتی تھی ۔کچھ علمی کام بھی انہوں نے کیا تھا۔ ایک تو انہوں نے مختصر ’’نماز محمدی ‘‘تحریر کی۔ اور دوسرا ان کا ایک کافی ضخیم رسالہ ہے،جس کا نام ’ضیاء القرآن ‘ جو کہ قرآن کریم کے فضائل کے بارے میں ہے۔
اوردادا جی کےجو چوتھے بھائی تھے ان کانام ثناء اللہ تھا۔یہ بھی زاہد وعابد تھے۔اور یہ بھی کچھ اشعار وغیرہ کہا کرتےتھے ۔
اسی طرح جو بچوں کے نانا جان تھے،وہ میرے ماموں تھے۔ وہ درس ِنظامی مکمل پڑھے ہوئے تھے۔اور انہوں نے دِہلی وغیرہ میں پڑھا، اور فراغت حاصل کی اور یہ بھی شروع شروع میں شاید چھانگا مانگایا کہیں اورامام وخطیب تھے۔ یہ اپنے والد صاحب کےگاؤں کبھی کبھار،، خطبہ دینے جایا کرتے، بہت اچھا بیان کرتے تھے، لوگ بہت خوش ہوتے تھے، بلکہ خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ عبدالمنان آئے اور خطبہ دے۔لیکن یہ بعد میں کاروبار میں الجھ کر، اس لائن سے کچھ دور ہو گئے ۔
بہرصورت ہمارا خاندان مختصر ہونے کے باوجود، اب تک اس میں انیس حافظ ہیں،اور دس گیارہ نے درس ِنظامی کیا ہے۔
باقی رہا والد صاحب کے بارے میں، تو میرے والد بھی عالم ِدین تھے۔ انہوں نے دہلی ، امرتسراور گوجرانوالہ میں پڑھا اور سند ِفراغت حاصل کی ۔ ان کے مشہور اساتذہ میں حافظ محمد گوندلوی اور حافظ محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ ہیں۔ ابا جی نے ساری زندگی اس مسجد میں گزاری جو دادا جی نے تعمیر کی۔ اس مسجد کے امام اور خطیب رہے۔باقاعدگی سے خطبہ دیتے اور نمازیں پڑھاتے ،اور فجر کے بعد بلا ناغہ درس قرآن ہوا کرتا تھا۔ ہمارے گاؤں کے ایک وکیل ہیں، اس وقت ابھی وکیل نہیں بنے تھے، تو مجھے کہنے لگے، کہ ان کا خطبہ سنیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑے سائنس دان بھی ہیں ۔ اسی طرح ہمارے گاؤں میں ایک نابینا حافظ تھے ، شروع میں ان کی پرورش ہمارے گھر میں ہوئی۔ ایک دفعہ وہ کہنے لگے،کہ اگر یہ تھوڑا سا مطالعہ کر کے خطبہ دیں، توان کا خطبہ سننے والا ہوتا ہے۔تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے ابا جی بھی دادا جی کے جانشین تھے۔اور کبھی کبھی ہم ان کو شارجہ بلایا کرتے تھے۔جب2003 میں وہ فوت ہوئے، تووہ شارجہ میں آئے ہوئے تھے،وہیں ان کی طبیعت خراب ہوگئی، اور جلدی پاکستان واپس چلے گئے۔
میرے ایک مدینہ منورہ کے ہم جماعت ہیں، جو شارجہ ہی ہوتے ہیں، والد صاحب سے اکثر علمی گفتگو کرتے، ایک دفعہ مجھے کہنے لگے ’القمر بین الشمشین ‘ ، یعنی والد صاحب وه چاند ہیں، جو د وسورجوں کے درمیان چھپا رہ گیا ہے۔
مولانا عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ بھی کبھی کبھار شارجہ آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ گھر آئے، کھانا وغیرہ کھایا، جانے لگے توکھڑے کھڑےابا جی نے کچھ چیزیں تاریخ اہل حدیث کے بارے میں بیا ن کیں ،تو کہنے لگے، کہ دیکھو انہوں نے کھڑے کھڑے تاریخِ اہل حدیث بیان کر دی ہے۔ ابا جی نے مجھے بتایا :جب میں چھوٹا تھا ، تو دادا جی نے ایک دفعہ ملک عبد العزیز کو اردو میں خط لکھا،اور مجھے کہا کہ اس کی عربی کردو۔دادا جان نے عربی ترجمہ شدہ خط حافظ روپڑی صاحب یا حافظ گوندلوی صاحب ـمجھے شک ہےـکو دکھایا تو انہوں نے کہا یہ عربی صحیح ہے۔ ان کی-دادا جان کی- ملک عبد العزیز سے دو تین ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایک1936 میں اوردوسری 1937 میں۔ آپ اس وفد کے ساتھ سعودیہ گئے ،جو ہندوستان سے حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کی معیت میں جایا کرتا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے، کہ میرے دادا جی کے جو جانشین تھے، وہ میرے والد صاحب تھے۔ لیکن ان کی شہرت اس لیے نہیں ہوسکی کہ انہوں نے عموما امامت،خطابت کے فرائض اور اپنی مسجد میں دروس پر ہی اکتفا کیا۔ دیگر دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے تصنیف وتالیف کی طرف نہیں آسکے۔ ان کی وفات نو فروری2003 کو ہوئی۔ وفات سے دو دن پہلے اپنے پوتے حافظ عبد السلام سے کہنے لگے، کہ میری طبعیت ناساز ہے اس لیے عید کی نماز تو نے پڑھانی ہے اور عید کا خطبہ میں دوں گا۔ لیکن ایک دن پہلے ہی وفات پا گئے۔ اور وفات سے ایک یا دو گھنٹے پہلے اپنی ایک بیٹی کو بلایا اور کہنے لگے کے آئیں ہم باتیں کرتے ہیں ۔بیٹی آئی تو خاموش ہوگئے، تو تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا ابا جی آپ نے تو مجھے باتیں کرنے کےلیے بلایا تھا، آپ تو کوئی بات ہی نہیں کر رہے، تو کہنے لگے’ لا ینطلق لسانی ‘ یعنی عربی میں جواب دیا کہ میری زبان نہیں چلتی ۔ تو یہ ہے مختصر سا ابا جی کے بارے میں ۔
بہرصورت پردادا جی سے لیکر اب تک ہماری نسل علما کی نسل ہے۔ الحمدللہ میرے بعد میرا بیٹا عبد السلام ہے۔ باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے مرکز اور مسجد کو وہی سنبھالتا ہے۔ مسجد میں امام اور خطیب ہے۔ بچوں کو پڑھاتا ہے، خطبہ بھی وہی دیتا ہے، قراءت بھی خوبصورت ہے۔اور اس نے شارجہ میں ہوتے ہوئے قرآن حفظ کیا تھا۔

(تمت بالخیر)

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف بن عبد الحنان الاشرفی رحمہ اللہ، کچھ عرصہ قبل بیمار ہوئے۔ کویت میں ہسپتال سے علاج کروایا، لیکن مطمئن نہ ہوئے۔ اور علاج چھوڑ کر اپنی اہلیہ اور بیٹی سمیت پاکستان تشریف لے آئے۔ یہاں آکر چند ہفتے گھریلو علاج معالجہ کرتے رہے، لیکن طبیعت بحال نہ ہوسکی۔ 8 اگست کو اچانک طبیعت زیادہ بگڑ گئی، جس وجہ سے ایمبولینس کے ذریعے لاہور CMH میں لایا گیا۔ بتایا گیا کہ خطرناک قسم کا بلڈ کینسر ہے، جس کے علاج کی کوشش کی گئی۔ علما و طلبہ کی طر ف سے مسلسل دعائیں جاری تھیں، 12 اگست کو خطبات جمعہ میں بھی دعائیں کروائی گئیں۔ بالخصوص رئیس لجنۃ العلماء للإفتاء فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ نے خود بھی رقت سے دعا فرمائی، اور اپیل بھی کی۔لیکن اللہ رب العالمین کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گویا مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دعا کی
لہذا آپ چار پانچ دن نیم بیہوشی کی حالت میں رہ کر، 14 اگست بروز اتوار کو عشا کے وقت سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ اگلے دن پندرہ اگست کو تقریبا ساڑھے گیارہ بجے آپ کے آبائی گاؤں میں جنازہ پڑھا کر سپردِ خاک کردیا گیا۔ کئی ایک علمائے کرام اور طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ شیخ رحمہ اللہ کی تعلیم و تربیت کے مطابق جنازہ بالکل سادہ اور سنت کے مطابق تھا۔ نماز جنازہ کی امامت آپ کے صاحبزادے مولانا عبد السلام حفظہ اللہ نے کروائی، اور سری جنازہ پڑھایا۔ دوسرا جنازہ مولانا ضیاء الرحمن سعید حفظہ اللہ نے پڑھایا، تاکہ لیٹ ہونے والے جنازہ ادا کرسکیں۔ قبر لحد بنائی گئی، اور اسے بند کرنے کے لیے کچی اینٹیں اور پتے رکھ کر، مٹی ڈال دی گئی۔ عین زوال کا وقت ہوچکا تھا، جس وجہ سے فورا دفنانے کی بجائے، قبر پر چارپائی رکھ کر دس پندرہ منٹ انتظار کیا گیا۔ کیونکہ وہاں موجود بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ حدیث کے مطابق عین زوال کے وقت دفنانا درست نہیں۔ دفن کے بعد سب نے مٹی ڈالنے میں شرکت کی، اور انفرادی طور پر دعا مانگی۔ اور بتایا گیا کہ شیخ رحمہ اللہ دفن کے بعد مروجہ اجتماعی دعا کو غیر مسنون عمل سمجھتے تھے۔ اسی قبرستان میں ساتھ ہی دکھایا گیا کہ آپ کے دادا مولانا اشرف سندھو، اور والد مولانا عبد الحنان سندھو کی بھی قبریں موجود تھیں۔ اللہ تعالی سب پر رحمتوں کی برکھا برسائے، اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ بلاشبہ آپ ایک محقق عالم، بلند پایہ محدث، اور عظیم مصنف تھے۔ ساری عمر بیرون ملک رہنے کے سبب، انہیں پاکستان میں اہل علم کے علاوہ زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ مرض الموت میں پاکستان آئے، لیکن چند خاص احباب و اقربا کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا۔ اور بڑی خاموشی، اور ایک طرح سے گمنامی میں، راہی بقا ہوگئے۔ رحمه الله رحمة واسعة وأمطر عليه شآبيب رضوانه.
جیسا کہ اوپر ذکر کردہ انٹرویو سے اندازہ ہوتا ہے، کہ شیخ محترم کی کئی ایک کتابیں طباعت کے لیے تیار ہیں، اور بعض تیاری کے مراحل میں تھیں، اللہ تعالی ان سب کی طباعت و اشاعت کا بہترین بندوبست فرمائے۔ آمین۔

وکتبہ: حافظ خضر حیات، مدیر لجنۃ العلماء