سوال (997)

“الصلاة والسلام عليك يا رسول الله” یا خالی “يا رسول الله” کہنا جائز ہے ؟

جواب

اگرچہ استغاثہ یا استعانت کا پہلو نہ بھی ہو تو مخاطب کے صیغوں کا ترک اولی ہے ، جہاں حکایتا ذکر ہے وہاں تو ٹھیک ہے کہ آپ کوئی بات سنا رہے ہیں ، حدیث یا واقعہ سنا رہے ہیں کہ صحابی آیا اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ، پھر تو ٹھیک ہے ، لیکن مطلقا اجازت دینا کہ استغاثہ یا استعانت نہیں ہے تو ٹھیک ہے ، اہل بدعت کے الفاظ کو سپورٹ کرنا اور پروموٹ کرنے کے مترادف ہے ، اس کی تائید کرنے کے مترادف ہے ، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
صحابہ کرام نہ استغاثہ کرتے تھے اور نہ ہی استعانت کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک توصحابہ نے السلام علیک ایھالنبی کو السلام علی النبی کردیا تھا ، یعنی مخاطب کے صیغے کو بدل دیا تھا ، لہذا اولی ہے کہ اس کو رواج نہ دیا جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

درود کے کلمات الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ سے ادا کرنے میں حرج نہیں ہے ، اس پر شیخ ابن باز کا فتویٰ موجود ہے ، لیکن ایک بات یہاں سمجھنی چاہیے ، اس طرح کے داعی انتہائی خطرناک ہیں۔ اس نے شروع میں کہا کہ پکار وغیرہ مراد نہ ہو ، آخر پر کہا کہ حاضر و ناظر کا مسئلہ نہیں نکلتا ، یہ لوگوں کی عقلوں کے ساتھ کھیلتے ہیں انتہائی خوبصورتی سے تساہل اور بدعقیدگی پیدا کرتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں توحید اور اھل توحید،شرک اور اھل شرک جمع ہو جائیں۔
اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ ہمارے ہاں مشرکین کے ہاں اس سے مقصود یہی ہوتا کہ اللہ کے نبی از خود یہ سب سماعت کرتے ہیں اور اسی سے وہ سب کچھ کہتے ہیں جس سے اللہ پاک ہے !
مثلا نبی علیہ السلام یہاں ہر جگہ موجود ہیں ہر ایک کی پکار کو سنتے ہیں جانتے ہیں اور ہر ایک کے احوال کے مطابق اس کی مدد کرنے پر قادر ہیں۔

ھذا ظلم عظیم،سبحانک ھذا بہتان عظیم

اس لیے ایسے مشتبہ الفاظ کا استعمال جن سے اھل بدعت کی مراد بری ہے ترک اولی ہے جیسا کہ سلف کا طریقہ ہے( اس کی تفصیل کتب عقیدہ میں دیکھئے)
اور لوگوں کو اس اصل پر ہی رکھا جائے جس پر وہ قائم ہیں۔بحمداللہ

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ