خادم القرآن قاری المقری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ(فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کا مختصر تعارف

إن اللهَ يَرفعُ بهذا الكِتابِ أقْواماً
”اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن)کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند کرتاہے۔
شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ
علم القرأت کو نمایاں طور پر متعارف کروانے والی نامور شخصیت ہیں ان کی جہود طیبہ سے اب یہ علم پاکستان کے تمام حلقہ ہائے فکر میں بالمعموم اور جماعت اہل حدیث میں بالخصوص زندہ ہواہے۔ آپ کلیۃ القرآن الکریم (مدینہ یونیورسٹی) کے نمایاں فضلاء میں سے ہیں۔
●قاری محمد ابراہیم بن حافظ محمد عبداللہ 1958ء کوموضع میر محمد (ضلع قصور) میں پیدا ہوئے۔
قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ نے تحصیل علم کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ قاعدہ والد محترم سے پڑھا اور ناظرہ قرآن مجید کی تکمیل والدہ محترمہ سے کی۔
تحفیظ القرآن
قاری صاحب نے 1967میں تقریبا آٹھ سال کی عمر میں اپنے گاؤں “میر محمد” میں مدرسہ محمدیہ (المعروف کھجور والی مسجد) میں محترم قاری صدیق الحسن رحمہ اللہ کے ہاں حفظ شروع کیا۔
دوران حفظ جن احباب کی رفاقت میسر رہی
(1)شیخ الحدیث حافظ محمد شریف حفظہ اللہ (مدیر مرکز التربیہ الاسلامیہ فیصل آباد )
(2)مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی حفظہ اللہ(مدیر جامع مسجد قدس لاہور)
(3)قاری محمد صدیق رحمانی صاحب (کنگن پوری)
میر محمد کے قریب قصبہ راجہ جنگ میں “ضیاء السنہ” کے نام سے مدرسہ جاری تھا اس میں داخلہ لیا اور دینی تعلیم کے حصول میں مشغول ہوگئے۔ پھر ایک سال یہی تعلیم حاصل کرتے رہے جن میں حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ اور مولانا عبدالحفیظ رحمہ سے باالاستیعاب پڑھا۔
تجوید وقرأت
1974ء میں آپ جامع مسجد لسوڑیوالی (لاہور) میں قاری محمد یحیی رسولنگری رحمہ اللہ کے ہاں تجوید پڑھنے کے لیے گئے۔ جن سے مفتاح التجوید ، تحفۃ الاطفال، فوائد مکیہ، مقدمۃ الجزریة، اور اس کے علاوہ حدرومشق بھی پڑھنے کاموقعہ ملا ۔
تحصیل علم کے لیے سفر
تجویدکے بعد ان کا ارادہ آگے قرأت پڑھنے کا ہی تھا کیونکہ وہ تجویدوقرأت سے ایک خاص لگاؤ رکھتے تھےلیکن ان کے ماموں جان قاری عزیر صاحب نے فرمایا کہ قرأت پڑھنے کے لیے ایک حد تک گرائمر کی سمجھ بوجھ ضروری ہے لہذا آپ کتب پڑھیں بعد میں قرأت پڑھیں گے۔ جس پر انہوں نے آپ کو جامعہ سلفیہ فیصل آبادمیں داخل کرادیا۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں مشائخ کرام
(1) شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق کرپالوی رحمہ اللہ۔
(2) شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ چھتوی رحمہ اللہ۔
(3)شیخ الحدیث مولانا قدرت اللہ فوق رحمہ اللہ۔
(4) شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ۔
(5)فضیلتہ الشيخ عبدالستار احسن رحمہ اللہ۔ (6)فضیلتہ الشيخ مولانا علی محمد رحمہ اللہ۔
(7) فضیلتہ الشيخ عبدالستار گیلانی رحمہ اللہ۔
●جامعہ سلفیہ میں 6سال تک مکمل تعلیم حاصل کی اور ساتویں سال میں ہی مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوجاتا ہے۔
مدینہ یونیورسٹی میں کلیة القرآن میں داخلہ لیا۔
جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا
(1)فضیلتہ الشیخ عبدالفلاح المرصفی صاحب۔
(2) فضیلتہ الشيخ عبدالرزاق صاحب۔
(3)فضیلتہ الشيخ الدکتور سالم محیسن صاحب۔
(4) فضیلت الشیخ محمد ابراہیم الاخضر علی القیم صاحب۔
(5)فضیلتہ الشيخ حبیب الرحمن الشنقیطی صاحب۔
(6) فضیلتہ الشيخ الدکتور محمود سیبویہ صاحب۔
(7)فضیلتہ الشيخ الدکتور عبدالعزیز القاری صاحب۔
(8)شیخ عبدالعزیز عثمان السوڈانی صاحب۔
(9)فضیلتہ الشيخ محمد ایوب البرماوی صاحب۔
(10) شیخ علی عبدالرحمن الحزیفی صاحب۔
(11)الدکتور عبداللہ بن الامام محمد امین الشنقیطی صاحب۔
پھر وہیں سے ہی “ایم فل” کیا
اللہ تعالٰی نے ان کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ (کنگ فہد کمپلیکس )میں تقریبا 11 پاروں کی ریکارڈنگ کروائی۔
کلیة القرآن کی تعلیم کے دوران میں سعودیہ ریڈیو میں بھی ان کی تلاوت کا سلسلہ جاری رہا۔
مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد سعودی حکومت انہیں بطور مبعوث کسی دوسرے ملک بھیجنا چاہتی تھی۔لیکن یہ خود اصرار کرکے اپنے وطن واپس آگئے تھے۔
●ممدوح کی تدریس کے مواقع جامعہ ابی بکرکراچی، جامعہ الاسلامیہ العالمیہ اسلام آباد، اور جامعہ سلفیہ فیصل اباد میں زیادہ تھے اور سعودیہ کی طرف سے مبعوث ہونے کے امکانات تھے۔لیکن ان کی خواہش یہ تھی کہ اپنے گاؤں کے قریب پڑھاؤں تاکہ اپنے عزیز واقرباء کو بھی دین تعلیم سے روشناس کروں اور دوسری ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ جہاں حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ پڑھائیں گے وہیں پر میں بھی پڑھاؤں گا ان دو اسباب کی وجہ سے انہوں نے جامعہ لاہور “الاسلامیہ” کا انتخاب کیا۔
1990ء میں انہوں نے جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) ماڈل ٹاؤن لاہور میں تجوید وقرأت کی تعلیم کے لیے شعبہ کلیۃ القرآن کا اغاز کیا۔
جامعہ میں صرف کلیة الشریعہ ہی تھا مختلف کلاسوں میں تجوید کے اسباق پڑھائے جاتے تھے ایک سال تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ سال کے آخر میں فضیلتہ الشیخ قاری المقری یحیی رسولنگری رحمہ اللہ کی بغرض امتحان کے لیے ممدوح کو بلایاگیا اور پوچھا کہ “کلیة القرآن” کے سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی ۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا شیخ یحیی رحمہ اللہ نے باقاعدہ خط کے ذریعے توجہ دلائی۔
جس پر رمضان کے شروع میں ہی “مجلس الجامعہ” کا پہلے اجلاس ہوا۔
پہلی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ” کلیہ “کو باقاعدہ جاری کرنے کے لیے کن کن حضرات سے مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ باقاعدہ نصاب ترتیب دے کر کلیۃ القرآن کا آغاز ہوسکے۔
لہذا یہ طے پایا کہ بنیادی مشاورت میں
(1) حافظ محمد یحیی میر محمدی رحمہ اللہ۔
(2)شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ۔
(3)مولانا عبدالسلام فتح پوری صاحب۔
(4)قاری محمد اسلم رحمہ اللہ۔
(5)قاری محمد یحیی رسول نگری رحمہ اللہ۔
(6)قاری محمد ادریس عاصم رحمہ اللہ۔
(7)فضیلتہ الشیخ عبدالستار حماد حفظہ اللہ۔
(8)فضیلتہ الشیخ عبدالغفار اعوان صاحب۔ (9)فضیلتہ الشیخ محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ۔
(10)قاری محمد عزیر صاحب۔
کلیتہ القرآن بنانے کا مقصد
(1)عالم غیر قاری اور قاری غیر عالم کا تصور ختم کرنا۔
(2)عوام اور علماء میں یہ شعور بیدار کرنا کہ تجوید القرآن سیکھنا کوئی فن نہیں بلکہ قرآن مجید کی تلاوت نماز کا اہم رکن ہے۔ اس کی مجرد تلاوت بھی عبادت ہے اور ہر عبارت کے لیے اصول و ضوابط اور مخصوص کیفیات ہوتی ہیں جن کو بجالانے سے عبادت قبول ہوتی ہے۔
(3)قران مجید کو ٹھیک پڑھنا یہ کسی خاص طبقے کا امتیاز نہیں بلکہ ہر مسلمان پر شرعی طور پر واجب ہے علماء کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔
(4) تجوید و قرأت پر ادھر ادھر سے جو اعتراض کیے جاتے ہیں کلیة کے فضلاء ان کاشافی جواب دے سکیں۔
(5)کلیہ کے فضلاء ایسے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیش خیمہ ہوں جو مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اثر احادیث سے بد ظنی کے باعث تنوع قرأت کے ،معجزہ قرآنی، کے منکر ہیں ۔
شیخ محترم کے چند نامور تلامذہ
(1) فضیلتہ الشیخ قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ۔
(2)قاری سلمان میر محمدی حفظہ اللہ۔
(3)قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ۔
(4)قاری محمد فیاض حفظہ اللہ۔
(5)قاری انس نضر مدنی حفظہ اللہ۔
(6)قاری عبید اللہ غازی حفظہ اللہ۔
(7)قاری خالد فاروق حفظہ اللہ۔
(8)قاری قمر الاسلام حفظہ اللہ۔
(9)قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ۔
(10) قاری عارف بشیر حفظہ اللہ۔
(11)قاری عبدالسلام حفظہ اللہ۔
(12)قاری ریاض عزیزی حفظہ اللہ۔
(13) قاری محمد احمد صدیق حفظہ اللہ۔
(14)قاری محمد شفیق الرحمان حفظ اللہ۔ (15)قاری ابوبکر خان پور حفظہ اللہ۔
(16) قاری سید محمد علی حفظہ اللہ۔
(17)قاری فیصل محمود حفظہ اللہ۔
(18) قاری عبدالرشید قمر حفظہ اللہ۔
(19) قاری عنایت اللہ امین حفظہ اللہ۔
(20)قاری عبداللہ رحمہ اللہ۔
(21) شیخ فیض الله ناصر حفظہ الله ۔
شیخ محترم کا تصنیفی کام
(1)المدخل الی القصیدة الدرة المضیة فی القراءت الثلاث۔
(2)المختارات من تحریرات من القراءات (عربی)
(3)الفوائدالبارھرة ما فی کتاب البدور الزھرة(عربی )
(4) تحفۃ الصبیان فی تجوید القرآن۔
(5)المدخل الی علم وقف والا ابتداء۔
(6) جمال البیان فی تجوید القرآن۔
(7)منارالسبیل فی مسائل التکبیر۔
(8)معین القاری فی تجوید کلام الباری ۔
(9) معین الصبیان فی تجوید القرآن۔
(10)تحفۃ القاری۔
(11)زينة القاری۔
(12)حجیة القراءت.
(13)القاعدۃ التجویدیہ۔
کئی سالوں سے قاری صاحب کلیۃ القرآن الکریم والتربیة ادارۃ ٹرسٹ (بونگہ بلوچاں پھول نگر ضلع قصور) میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
●شیخ محترم کو اندرون ملک اور بیرون ملک قرأت قرآن کی بڑی بڑی کانفرنسوں میں شرکت اور تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا عبدالمالک مجاہد حفظہ اللہ کا قائم کردہ ادارہ “دارالسلام” کتابوں کی نشر و اشاعت کا ایک منفرد نوعیت کا بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر ریاض (سعودی عرب) میں ہے اور لاہور میں اس کا بہت بڑا دفتر “سیکرٹریٹ”کے قریب ہے جس کے جنرل مینجر حافظ عبدالعظیم اسد حفظہ اللہ ہیں۔ اس ادارے کی طرف سے قاری صاحب نے پورے قرآن مجید کی تلاوت کی جو دفتر میں محفوظ ہے۔
●قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ بہت سے جامعات میں شعبہ” تجوید و قرأت” کی نگرانی فرمارہے ہیں جن میں سر فہرست :
(1)جامعہ سلفیہ فیصل آباد(مرکزی ادارہ )
(2) المھد العالی(مرکز بلال لاہور) زیر اہتمام: قاری المقری ریاض عزیزی حفظہ اللہ۔
(3)معھد القرآن الکریم لاہور زیر اہتمام: قاری عبدالسلام عزیزی حفظہ اللہ۔
ممدوح رفیع المرتبت عالم دین، نامور قاری اور ماہر فن تجوید ہیں۔ ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ اللہ تعالی ان کو قرآن وحدیث
کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق بخشے۔ آمین

یہ بھی پڑھیں:قاری سلمان احمد میر محمدی حفظہ اللہ

● ناشر: حافظ امجد ربانی
● متعلم :جامعہ سلفیہ فیصل آباد