فتویٰ دینا کوئی معمولی کام اور بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ بلا شبہہ یہ فریضہ افتاء اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں رہتے ہوئے سر انجام دیا جاتا ہے. اس لیے ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے فتوے کا مصدر اور ماخذ صرف وحی الہی ہو جس کی تعبیر کتاب وسنت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز مصدرِ فتویٰ نہیں ہونی چاہیے۔

اور پھر مصدرِ فتویٰ کے ساتھ ساتھ منہجِ فتویٰ بھی ائمہ سلف کے مطابق ہونا چاہیے۔ منہجِ فتوی سے ہماری مراد وہ طریقہ کار ہے جو فتویٰ دیتے وقت ہم اختیار کرتے ہیں. واضح رہے کہ فتویٰ دیتے وقت ذاتی رائے کے بجائے فہمِ سلف کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے تاکہ ’سبیل المؤمنین‘ سے انحراف نہ ہو۔

یقین جانیے! ہم تو ہمیشہ اللہ سے ڈرتے ڈرتے یہ الفاظ منہ سے نکالتے ہیں کہ ’ہمارا فتوی یہ ہے۔۔۔!‘

سائلین کو بھی فتوی طلب کرتے ہوئے، اس کی اہمیت و حیثیت سے واقف ہونا چاہیے۔ کام کی بات پوچھنی چاہیے، غیر ضروری امور میں اپنا وقت ضائع کریں، نہ علما کو ان میں الجھائیں۔

فتوی کمیٹی کے ذمہ دار کی حیثیت سے میں سائلین وقارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ

  1. خوابوں کی تعبیر،رشتوں کی بندش، وغیرہ سے متعلق سوالات نہ کیے جائیں۔
  2. ایسے سوالات جن کا دینی ودنیاوی کوئی فائدہ نہ ہو، ان سے گریز کیا جائے، اور ضرورت پوری ہونے کے بعد مزید سوال در سوال بھی مناسب نہیں۔
  3. ایسے معاملات کے متعلق سوالات جن پر شریعت کا سکوت ہو مثلاً: مشاجراتِ صحابہ وغیرہ موضوعات، یہ بھی ہمارے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
  4. عبادات کی غرض وغایت اور مقاصد سے متعلق سوالات، جنہیں شریعت نے بیان نہیں کیا، ایسے سوالوں سے بھی ہم معذرت کرتے ہیں۔
  5. عقل وقیاس کے ذریعے نصوص کا رد، اسی طرح متشابہات سے متعلق ، فریق ثانی کو لا جواب کرنے کے لیے سوالات ، بلاضرورت سوالات گھڑ گھڑ کر دماغ سوزی کرنا اور فرضی مسائل کھڑے کر کے ان کے متعلق غور وخوض کرنا بھی ہمارا منہج ومسلک نہیں ہے، لہذا ایسے تمام سوالات سے گریز کیا جائے۔
  6. حقیقت کی تلاش میں علما سے رجوع کرنا مطلوب ومقصود ہے، لیکن من پسند فتوی کے لیے مختلف علما کے پاس جانا، مسالک بدلنا درست طریقہ کار نہیں، اہلِ علم نے اس فعل کی سخت مذمت کی ہے، اور خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایسا شخص بعض دفعہ دین وایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
  7. سوال تحریری طور پر لکھا ہوا ہونا ضروری ہے، (آڈیو، ویڈیو یا امیج وغیرہ نہ ہو) اگر سوال کسی آڈیو یا ویڈیو یا کتاب سے متعلق ہے، تو مطلوبہ مقام کی نشاندہی کریں، اور تحریری طور پر لکھ کر ساتھ بھیجیں۔
  8. سوال پوچھتے ہوئے مکمل صورتِ حال واضح کریں، ہم جواب لکھی ہوئی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے تحریر کرتے ہیں، اگر سوال لکھنے میں عمدا یا سہوا کوئی غلطی ہو ئی تو اس کا ذمہ دار سائل ہوگا۔
  9. روز مرہ سوالات کے لیے مناسب طریقہ یہ ہے کہ مقامی خطیب یا عالم ِدین کی طرف رجوع کریں، البتہ جو ہنگامی نوعیت کے سوالات ہیں، جدید مسائل سے متعلقہ استفسارات ہیں ، یا میڈیکل سے متعلقہ کوئی الجھن ہےجو شریعت سے ٹکراتی نظر آتی ہے، تو ان امور سے متعلق سوال کیجیے، ہم کوشش کریں گے کہ آپ کے سوال کا جواب کتاب وسنت کی روشنی میں دیا جائے۔
  10. جب آپ کا جی چاہے، واٹس ایپ نمبر کے ذریعے سوال پوچھ لیں، لیکن جواب میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں، جونہی آپ کے سوال کی باری آئے گی، اس کا جواب واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ہماری ویب سائٹ پر نشر کردیا جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔
وبا زدہ علاقے سے نکلنے کا حکم
  • 26 اگست, 2022
  • فتوی نمبر: 02