سوال
ایک ماں اپنے بچے کو کتنی مدت تک دودھ پلا سکتی ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
قرآن مجید میں ہے :
“وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ”.[البقرة:233]
’اور بچے والیاں دودھ پلائیں اولاد اپنی کو پورے دو سال، یہ اس کےلیے ہے جو رضاعت مکمل کرنا چاہیے‘۔ اور دوسرے مقام پر ہے:
“وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ”.[لقمان:14]
’’اور دودھ چھڑانا اس کا دوسال میں ہے‘۔
ہاں خاوند بیوی باہمی صلاح مشورہ کے ساتھ دو سال سے قبل بھی بچے کو دودھ چھڑا سکتے ہیں،۔
“فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا”. [بقرة:233]
’پس اگر وہ ارادہ کریں دودھ چھڑانے کا، آپسی رضامندی ، اور مشاورت کے ساتھ،تو پھر ان دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے‘۔
دودھ پلانا بچے کا حق ہے، کیونکہ عموما دو سال تک بچے کی غذا صرف یہی دودھ ہوتا ہے، اس لیے شریعت نے یہ مدت بیان کردی۔ لیکن بچے کی مصلحت اور حالت کو سامنے رکھتے ہوئے، کمی بیشی کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
امام قرطبی فرماتے ہیں: ’بچے کی صحت کو سامنے رکھتے ہوئے، والدین باہمی رضامندی سے دو سال سے کمی، بیشی کرسکتے ہیں‘۔ [تفسير قرطبي:3/162]
سعودی فتوی کمیٹی ’لجنۃ دائمہ‘ کا بھی یہی فتوی ہے۔ [فتاوى اللجنة الدائمة:21/60]
اور بھی کئی ایک اہل علم نے لکھا ہے، کہ بچہ کمزور ہو، تو دو سال سے زیادہ دودھ پلانا جائز ہے۔ [الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي:10/36]
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ