سوال

میری شادی 18 سال پہلے ہوئی۔ میں اور میری بیوی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ہمارے درمیان دو دن پہلے گھریلو جھگڑا ہوا۔اور میں نے طیش میں آکر ایک ہی دفعہ اپنی بیوی کو کئی بار طلاق دے دی۔ جو میں نے طلاق کے الفاظ ادا کیے وہ مندرجہ ذیل ہیں: میں تجھے طلاق دیتا ہوں٫ میں تجھے طلاق دیتا ہوں،طلاق، طلاق، طلاق۔

اس سے پہلے جب بھی ہماری کبھی لڑائی ہوئی، میں نے طلاق کا لفظ نہیں کہا، اور نہ ہی پہلے میں نے کبھی طلاق دی۔

برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

(محمد یسین ولد ریاض احمد)

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ  واقع  ہوتے ہیں ، معمولی گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر یکبار  ایک سے زائد طلاق دے دینا  ہماری عادت بن چکی ہے۔حالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل  اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)

البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت   ایک سےزائد طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

  • مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے ۔ لہذا آپ لوگ رجوع کرسکتے ہیں ۔لیکن آئندہ احتیاط کریں ،کیونکہ ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔اور صرف ایک  رجعی طلاق باقی رہ گئی ہے۔ پھر جلد بازی کی تو کب تک رجوع کا حق باقی رہے گا؟!
  • ہم دونوں میاں بیوی سے یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن  غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں  بے قابو ہوکر انتہائی اقدام کرنا خطرناک ہے، لہذا اس کی وجوہات کو تلاش کریں، پھر ذہنی جسمانی روحانی جو بھی وجہ ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ