سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو  تین طلاقیں دیں، اور اسے کہا کہ گھر سے دفع ہوجاؤ، عورت ساتھ ہمسائیوں یا رشتہ داروں کے گھر چلی گئی، اس نے جا کر ساری صورت حال بتائی، تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آئیں، ہم اسے سمجھاتے ہیں، اور آپ کو گھر چھوڑ کر آتے ہیں، لہذا گھنٹے آدھے بعد وہ اس عورت کو لیکر دوبارہ اس کے گھر چھوڑ آئے، لیکن اس عورت کے خاوند نے دوبارہ پھر اس عورت کو تین طلاقیں دے کر گھر سے باہر نکال دیا۔یہ واقعہ دو ماہ پہلے کا ہے  تقریبا ،اب عورت اس وقت اپنے ماں باپ کے گھر ہے، اور ان کے رشتہ دار پوچھ رہے ہیں کہ  اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں، اور رجوع کی کوئی صورت ممکن ہے تو کیسے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مذکورہ سوال میں تین باتیں قابلِ وضاحت ہیں:

(1)ایک ہی دفعہ دی گئی تین طلاقیں                       (2)  وقفے بعد دوبارہ پھر طلاق کااعادہ

(3) رجوع کا طریقہ کار

تینوں کو  بالترتیب الگ الگ ذکرکیا جاتا ہے۔

  • ایک ہی دفعہ دی گئی تین طلاقیں:

کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت  تین طلاقیں  ایک طلاق ہی شمار ہوتی ہے۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی  واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔

  • وقفے بعد دوبارہ پھر طلاق کااعادہ:

جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ایک ہی دفعہ ایک سے زائد مرتبہ طلاق طلاق کہنے سے ایک طلاق واقع ہوئی تھی، دوبارہ گھنٹے آدھے بعد عورت کے گھر واپس آنے پر خاوند نے جو دوبارہ طلاق کا کہا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، اگر تو اس کی مراد پہلے کی ہی تاکید تھی، تو پھر یہ دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ یہ پہلے والی ایک ہی شمار کی جائے گی، لیکن اگر اس کی مراد دوسری طلاق واقع کرنا تھی، تو پھر دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔

  • رجوع کا طریقہ کار:

پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عورت کی عدت کے اندر اندر خاوند رجوع کرسکتا ہے،الله تعالی کا ارشاد ہے :

((وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) اور آخر میں ہے:((وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)) (سورۃ البقرۃ:228)

”طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظارکریں اور اس مدت کےدوران ان کے خاوندان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔“

لہذا دورانِ عدت انسان بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ، حق مہر ونکاح وغیرہ کسی چیز کی ضرورت نہیں،لیکن اگر انسان   كو عدت گزر جانے کے بعد رجوع  کا خیال آیا، تو چونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، لہذا  ایسی صورت میں  اس خاتون كو رشتہ ازدواجیت میں لانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ(سورۃ البقرۃ:232)

” جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی،پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں،تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“

لہٰذا  معلوم ہوا کہ عدت ختم ہونے کے بعد بذریعہ نکاحِ جدید دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔

بشرطیکہ بیوی  نکاحِ جدید کےلیے راضی  ہو۔ كيونكہ جیسے  ولی کی اجازت  شرط ہے اسی طرح بیوی کی رضامندی بھی شرط ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں

«الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»؟ قَالَ: نَعَمْ(سنن ابی داؤد :۲۰۹۸)

”بیوہ اپنے ولی کی بہ نسبت ،اپنے بارے میں زیادہ حق دار ہے  اور کنواری سے بھی اس کے اپنے بارے میں مشورہ کیا جائے گا ،اس كی خاموشی ہی اس کی اجازت شمار ہوگی ۔“

اس کے علاوہ حق مہر بھی نیا ہوگا، کیونکہ پہلا حق مہر  نکاح کے ختم ہونے سے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ  نکاح  بند کمرے میں نہ  ہو، بلکہ گواہوں کی موجودگی   لازمی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ دورانِ عدت رجوع ، یا عدت ختم ہونے کے بعد نکاح کا حق صرف پہلی اور دوسری طلاق میں ہی ہوتا ہے، تیسری طلاق کے بعد  یہ دونوں حق ختم ہوجاتے ہیں۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ