سوال

دینی مدارس میں طلبہ کو غیر حاضری، تاخیر وغیرہ پر مالی جرمانہ عائد کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی غلطی، جرم وغیرہ سے روکنے کے لیے جو حالات کے مطابق سزا دی جاتی ہے، اسے تعزیر کہتے ہیں۔

تعزیر کی مختلف صورتیں جائز ہیں، تعزیر کی ایک اہم شکل مالی جرمانہ (fine) بھی ہے۔

جسے تعزیر بالمال کہاجاتا ہے.  قدیم فقہاء میں سے جمہور اہل علم اسے جائز نہیں سمجھتے تھے۔

کیوں کہ قرآن و حدیث میں مسلمان کے مال  وجان کا احترام بہت وضاحت سے بیان ہوا ہے، نیز کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر لینے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔

اس طرح کے عمومی دلائل کے پیش نظر آج بھی اہل علم کا ایک طبقہ مالی جرمانے سے منع کرتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق عام حالات کے مطابق مالی جرمانے سے گریز ہی بہتر ہے، تاکہ حاکموں کو لوگوں کے مال ناجائز کھانے کا موقع نہ ملے۔

لیکن بعض صورتوں میں عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق، ظلم وجبر کیے بغیر، مصلحت کے تحت مالی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے. اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • مدینہ منورہ کا مخصوص علاقہ مسلمانوں کے لیے قابل احترام اور حرم مکی کی طرح ہے۔اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ یہاں شکار نہ کیا جائے، نہ ہی درخت کاٹا جائے، لیکن جو شخص اس کی حرمت پامال کرے، ایسے شخص سے سزا کے طور پر حدیث رسول کے مطابق اس کے کپڑے چھین لینا، ہتھیار ضبط کر لینا جائز ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس پر باقاعدہ عمل بھی کیا۔[ابو داؤد: ٢٠٣٧]

اور یہ کپڑے اور ہتھیار چھیننا مالی جرمانے ہی کی ایک قسم ہے۔

  • کسی باغ وغیرہ سے گزرتے ہوئے اگر کوئی ضرورت مند، بھوک کا مارا بقدر حاجت کھا لے تو انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے، اسے کچھ نہ کہا جائے، لیکن اگر وہ پھل وغیرہ توڑ کر، کسی کپڑے میں ڈال کر چلتا بنے، تو ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دوگنا واپس لینے کی اجازت دی ہے:

“مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ، غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً ، فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ”. [ابوداؤد: 1712]

’جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی‘۔

یہ بھی مالی جرمانے کی ہی ایک شکل ہے۔

  • جو شخص زکاۃ دینے سے کنی کترائے، اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی جرمانہ عائد فرمایا، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

“وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ مَالِهِ”. [ابوداؤد: 1575]

’ اور جو زکا ۃ دینے سے انکار کرے گا ہم اس سے  وصول کر لیں گے، اور  ( زکاۃ روکنے کی سزا میں )  اس کا کچھ(مزید) مال لے لیں گے‘۔

  • عصر حاضر میں بہت سارے جرائم اور قانونی خلاف ورزیاں ایسی ہیں، جہاں مالی جرمانے کی سزا دیے بغیر ان کو روکنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اسی بنا پر ساری مسلم وغیر مسلم دنیا میں ان خلاف ورزیوں کے سد باب کے لیے جرمانے کی سزا رائج ہے، جیسا کہ ٹریفک قوانین وغیرہ کی خلاف ورزی۔اس کی روشنی میں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں بعض صورتوں میں مالی جرمانے پر عملا اتفاق پایا جاتا ہے۔
  • پھل کی چوری، کسی کے مال میں کوتاہی ہے، جب اس پر ڈبل پھل کی سزا دی جاسکتی ہے، تو اسباق میں غیر حاضری، تاخیر، کاہلی وغیرہ پر بالأولی سزا دی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ اس سے زیادہ اہم اور حساس مسئلہ ہے۔

دینی مدارس میں بالخصوص اس لیے بھی اس سزا کا جواز ہے، کہ مدارس اپنے طلبہ سے کسی قسم کے اخراجات وصول نہیں کرتے، اگر ایک طالب علم مدارس کی تمام سہولیات سے مستفید ہوتا ہے، تو اس پر مدرسہ ماہانہ ہزاروں روپے خرچ کررہا ہوتا ہے، جب طالب علم جان بوجھ کر کوتاہی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ ہزاروں روپے کا نقصان کرتا ہے، وقت کا ضیاع، نظم کی خرابی، اساتذہ کو ذہنی کوفت اس پر مستزاد ہے۔ ان حالات کے پس منظر میں مدراس اپنے طلبہ پر مالی جرمانہ عائد کرنا چاہیں، تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں البتہ اس میں بھی دیگر مصالح، ادارے کے نظم و ضبط اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

تحریر کنندہ: ڈاکٹر عبید الرحمن محسن

’جواب درست ہے۔‘

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ