سوال

میری شادی ایک شخص سے ہوئی، جو کہ یوکے کا رہنے والا ہے،  شادی کے تقریبا 15 دن بعد ہی ہمارے درمیان ایشوز چلنا شروع ہوگئے، نویں مہینے میں اس نے مجھے واٹس ایپ کے ذریعے ایک طلاق بھجوائی، پھر گیارہویں مہینے میں دو طلاقیں اکٹھی بھجوا دیں۔

اور یہ تینوں طلاقوں کے پیپرز کی اس نے مجھے تصاویر واٹس ایپ کی ہیں، فزیکلی کوئی چیز مجھے موصول نہیں ہوئی… اب اس نے میرا نمبر وغیرہ بھی بلاک کردیا ہے، میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں… آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ طلاق ہوگئی ہے؟ اور کیا رجوع کا کوئی امکان ہے کہ نہیں؟

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ  واقع  ہوتے ہیں ، ناچاکی کی بنیاد پر  ایک سےزائد اکٹھی طلاقیں دے دینا  ہماری عادت بن چکی ہےحالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل  اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)

البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت   طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی  واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔

  • صورتِ مسؤلہ میں دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، گیارہویں مہینے میں جو دو اکٹھی دی گئی ہیں، وہ مذکورہ بالا دلائل کی رو سے ایک ہی شمار ہوگی، اور جو اس سے پہلے نویں مہینے میں دی گئی ایک وہ ہوگی۔ آخری دفعہ دی گئی طلاق کو اب تقریبا چھ سات ماہ کا عرصہ گزرنے والا ہے، لہذا عدت ختم ہونے کے باعث اب رجوع تو ممکن نہیں، چونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ(سورۃ البقرۃ:232)

” جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی،پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں،تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“

البتہ بذریعہ نکاحِ جدید دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔بشرطیکہ بیوی  نکاحِ جدید کےلیے راضی  ہو۔ كيونكہ جیسے  ولی کی اجازت  شرط ہے اسی طرح بیوی کی رضامندی بھی شرط ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

«الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»؟ قَالَ: نَعَمْ (سنن ابی داؤد :۲۰۹۸)

”بیوہ اپنے ولی کی بہ نسبت ،اپنے بارے میں زیادہ حق دار ہے  اور کنواری سے بھی اس کے اپنے بارے میں مشورہ کیا جائے گا ،اس كی خاموشی ہی اس کی اجازت شمار ہوگی ۔“

اس کے علاوہ حق مہر بھی نیا ہوگا، کیونکہ پہلا حق مہر  نکاح کے ختم ہونے سے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ  نکاح  بند کمرے میں نہ  ہو، بلکہ گواہوں کی موجودگی   لازمی ہے۔

  • سوال میں مذکور ہے کہ طلاق پیپرز کی ہارڈ کاپی بھیجنے کی بجائے، واٹس ایپ پر ان کی تصاویر بھیجی گئی ہیں، تو اگرچہ قانونی طور پر اس میں کوئی پیچیدگی ہوسکتی ہے، البتہ شرعی اعتبار سے ایسی طلاق ہوجاتی ہے۔
  • جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مرد ایک عرصے سے رابطے میں نہیں ہے، اور عدت بھی ختم ہوچکی ہے،  تو عورت  کہیں اور نکاح کرکے اپنا گھر بسا سکتی ہے۔ اللہ تعالی سب کو آزمائشوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ