سوال

مفتیانِ کرام سے گزارش ہے کہ کیا اسٹیٹ لائف کمپنی میں انشورنس کروانا جائز ہے کہ نہیں؟

مستفتی: ہمایوں خان، پشاور

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بیمہ یا انشورنس (insurance) کے قائلین اسکا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ 1400ء میں اٹلی کے تاجروں میں سے ایک تاجر کا جہاز سمندر میں غرق ہوگیااور وہ انتہائی تنگ دست ہوگیا۔ دوسرے تاجروں نے اسکے ساتھ تعاون کیا ،اور اس کے لیے کچھ رقم اکٹھی کرکے اسے اس قابل بنایا، کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے ۔ چونکہ ایسے حادثات کا آئندہ بھی امکان تھا، سو تاجروں نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ تمام تاجر ہر ماہ یا ہرسال جیسے بھی سہولت ہو ، ایک معین رقم ادا کر دیا کریں تاکہ اس فنڈ سے اس قسم کے حوادثات و خطرات کے نقصان کا کسی حدتک تدارک کیا جاسکے۔

انشورنس کا یہ پس منظر ہی کفار کی تنگ دلی کی واضح مثال ہے!جبکہ اسلام نے ایسے حوادث کے پیشِ نظر ایک بہترین نظام متعارف کروایا ہے جسے “صدقہ” کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 “رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ”[صحیح مسلم: 1044 ]

ایسا شخص جس پر کوئی آفت آئی ،اور اسکا سارا مال نگل گئی، تو اسکے لیے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے ، حتى کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو جائے۔

ایسے لوگوں کو ’’ غارمین‘‘ کہہ کر اللہ تعالى نے زکاۃ کے مال میں بھی ایسے لوگوں کا حق رکھا ہے ۔ [سورۃ التوبۃ: 60] اورصاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض کیا ہے، کہ وہ اپنے مال میں سے ہر سال مخصوص رقم “زکاۃ” کی مد میں نکالیں۔  اسی طرح نفلی صدقات کرنے پر بھی انہیں ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے فرضی صدقہ (زکاۃ ‘ عشر‘ فطرانہ وغیرہ) کے علاوہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ پھر اسلام نے یہ پابندی بھی نہیں رکھی کہ جو صدقہ دے گا ،مصیبت میں صرف اسی کو ہی صدقہ دیا جائے گا۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اسلام قبول کرلے ،اگر وہ صدقہ کا مستحق ہے، تو اس پر صدقات حلال ہو جاتے ہیں ۔

اسلام کے اس حسین نظامِ صدقات وزکاۃ کے مقابل قائم کیا جانے والا بیمہ یا انشورنس کا نظام انتہائی بھیانک قسم کا ہے ۔ مختلف انشورنس کمپنیاں سادہ لوح عوام کو سبزباغ دکھا کر ‘ ملمع سازی کرتے ہوئے اپنے جال میں پھنساتی ہیں ۔  اسی طرح کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے “عقلمند” ان شاطروں کی چرب زبانی کا شکار ہوکر اپنے تمام تر ملازمین کے لیے بیمہ کو لازم قرار دے دیتے ہیں۔

جبکہ شرعی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو بیمہ یا انشورنس جسے بعض لوگوں نے “تکافل” کا خوبصورت نام دے کر حلال کرنے کا حیلہ کیا ہے، درجِ ذيل  کئی ایک قباحتوں کا مرکب ہے:

  • اس میں ربا (سود) ‘ قمار (جوا) اور غرر (دھوکہ دہی) ہے۔لائف انشورنس ہو یا میڈیکل انشورنس‘ مکان و دکان کی انشورنس ہو، یا گاڑیوں کی، ہمہ قسم انشورنس میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔
  • اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان بالقدر کے عقیدہ کو بھی انشورنس کمزور کر دیتی ہے۔
  • شریعت کے نظامِ وراثت کو بھی متاثر کرتی ہے، کیونکہ انشورنس میں مرنے والے کی رقم ، اسلامی شریعت کے مطابق تقسیم ہونے کی بجائے ،اسکے نامزد کردہ افراد کو ملتی ہے۔
  • انشورنس پر بونس کے نام سے دیا جانے والا سود،اور اس میں پایا جانے والا غرریعنی دھوکہ (کیونکہ نہ تو بیمہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی رقم ادا کرے گا اور نہ ہی کمپنی کو معلوم ہوتاہے کہ وہ کیا وصول کرے گی) جس طرح واضح طور پر حرام ہے، بعینہ اس میں پایا جانے والا اِضرار (نقصان پہنچانا) بھی ناجائز ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بیمہ پالیسی ترک کرنا چاہے تو اسکی چالیس فیصد رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے ، اور بسا اوقات تو جس شخص کا بیمہ ہوا ہوتا ہے اسے اسکے ورثا ہی قتل کردیتے ہیں، تاکہ جلد تھوڑے نقصان کے ساتھ زیادہ رقم ہاتھ آئے۔

ان قباحتوں کی وجہ سے بیمہ یا انشورنش ، چاہے جس کمپنی یا ادارے کی طرف سے بھی ہو،شرعی طور پر واضح حرام اور ناجائز ہے۔

  • بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ انشورنس بعض اسلامی ملکوں (سعودی عرب وغیرہ) میں بھی ہوتی ہے،  اور اسلامی ناموں سے ہوتی ہے، تو ہماری گزارش ہے کہ  انشورنس میں اگر  یہ قباحتیں  موجود ہیں تو وہ سعودی عرب میں ہونے ، یا کوئی اسلامی نام رکھنے کی وجہ سے حلال نہیں ہو جائے گی ۔كسی چیز کا نام یا مقام  بدلنے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔ اگر ہم خنزیر کو بکرا کہہ دیں تو وه خنزیر ہی رہے گا، کسی صورت  بکرا نہیں بن جائے گا۔ اسی طرح یہودیوں کی بیمہ کمپنی ،ا گر سعودی عرب میں ہو تب بھی یہودیوں کی کمپنی ہے، پاکستان میں ہو تب  بھی یہودیوں کی کمپنی ہے۔

البتہ اگر اس سے یہ قباحتیں دور کر دی جائیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں تو پھر جہاں سے بھی کروا لیں جائز ہے۔ اگر یہ قباحتیں موجود ہیں تو پھر جہاں  سے بھی کروائیں ناجائز ہے، سعودیہ  ہو یا پاکستان ، یا کوئی تیسری جگہ۔

لہذا کبھی بھی انشورنس نہ کروائیں اور اگر کوئی ایسی کمپنی ہے جو انشورنس کے بغیر ملازمت نہیں دیتی تو اس سے کنارہ کرکے کہیں اور اللہ کا فضل تلاش کریں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

وکتبہ: محمد رفیق طاہر

جواب درست ہے۔

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ