سوال

میں مسماۃ نازیہ شاھین کی شادی جنید خالد ولد خالد حسین سے تقر یبا 13/14 سال پہلے ہوئی تھی۔ جس سے ہمارے چار بچے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مورخہ 11/6/22 کو میں اپنی کزن کی شادی میں شرکت کرنے گئی ۔اس دوران میرے شوہر نے مجھے فون کر کے گھر واپس آنے کا کہا، جس پر میں گھر واپس آ گئی، جس میں تقریبا ایک گھنٹہ لگا۔
اس پر میرے شوہر غصے میں آ گئے، اور واپس گھر پہنچے پر بڑے بچے کو مارنے پیٹنے لگے، اور مجھے کہا کہ میں تمہیں تمھاری والدہ کے گھر چھوڑوں گا۔ اس دوران ہمارے درمیان کچھ سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا ،اور وہ مجھے میری امی کے گھر لے آیا ۔اور میری امی ،بھائی اور چچی کی موجودگی میں کہا کہ (میں تمہیں طلاق دیتا ہوں) جس پر میری امی نے اس کی منہ پر ہاتھ رکھ دیا، اور سمجھانا شروع کر دیا۔پھر میرا بھائی بلال، میرے شوہر جنید کو پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گیا، اور اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔اس کے بعد جنید اٹھا اور قرآن طلب کیا۔اور قرآن کی طرف دیکھ کر، اپنا منہ قرآن کی طرف کیا، اور کلمہ پڑھ کر کہا (میں پورے ہوش و حواس میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں) اور گھر سے باہر نکل گیا۔ اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر میری امی کو بلایا۔ میری امی اور میرا بھائی دونوں اس کے پاس گئے، تو جنید نے کہا: میں نے اسے طلاق نہیں، دی بلکہ صرف اس کو ڈرانے کے لئے ایسا کیا۔ اس سارے واقعہ کے گواہ میری امی، میرا بھائی بلال ، میرا چھوٹا بھائی شاہ ذیب ،اور میری چچی شازیہ ہیں، جوکہ وہاں پہلے سے موجود تھے ،اور میں خود بھی اس کی گواہ ہوں۔
جو کچھ ہوا ہے ہم اس پہ شرمندہ ہیں ۔اور ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کیا شریعت کی روشنی میں ہمارے لئے رجوع کی گنجائش موجود ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ واقع ہوتے ہیں ، معمولی گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر یکبار ایک سے زائد طلاق دے دینا ہماری عادت بن چکی ہے۔حالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)
البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت ایک سےزائد طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار)
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔،، راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر )
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔
 طلاق کے حوالے سے یہ رویہ بھی بہت افسوس ناک ہے، کہ طلاق دی جاتی ہے، اور پھر کہا جاتا ہے کہ میں صرف ڈرانے کے لیے یہ کر رہا تھا، اور میں طلاق دینا نہیں چاہتا تھا، وغیرہ۔ گویا ڈرانے دھمکانے کے لیے سوائے طلاق کچھ نہیں رہ گیا؟ ڈرانے دھمکانے کی ضرورت ہو، تو کوئی مناسب طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے:

“ثَلاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكَاحُ وَالطَّلاقُ وَالرَّجْعَةُ”[سنن أبی داود: 2194 ، سنن الترمذي: 1184 وحسنه الألباني في صحيح سنن الترمذي : 944 ]

’نکاح، طلاق اور رجوع، تین چیزیں سنجیدگی اور غیر سنجیدگی، ہر حال میں واقع ہوجاتی ہیں‘۔
لہذا جب واضح اور صریح طور پر لفظ طلاق بول دیا جائے، تو پھر ایسی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں کہ میری نیت نہیں تھی، یا میری مراد کچھ اور تھی… وغیرہ۔
 مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ صورت مسؤلہ میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے ۔ لہذا آپ لوگ عدت کے اندر اندر رجوع کرسکتے ہیں ۔لیکن آئندہ احتیاط کریں ،کیونکہ ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔اور صرف ایک رجعی طلاق باقی رہ گئی ہے۔ پھر جلد بازی کی تو کب تک رجوع کا حق باقی رہے گا؟!
 ہم دونوں میاں بیوی سے یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں بے قابو ہوکر انتہائی اقدام کرنا خطرناک ہے، لہذا اس کی وجوہات کو تلاش کریں، پھر ذہنی جسمانی روحانی جو بھی وجہ ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ