حالیہ دنوں وطن عزیز پاکستان میں اس نوعیت کی خبریں اور واقعات بہت دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ حالات سے تنگ آکر فلاں شخص نے خودکشی کر لی، میاں اور بیوی نے پہلے اپنے بچوں کو قتل کیا اور پھر خود کو قتل کر لیا، زہر کھا لیا، اپنے ہی پسٹل سے خود کو فائر مار دیا، گلے میں پھندا ڈال کر لٹک گیا، نہر میں چھلانگ لگا دی، ٹرین کے نیچے سر دے دیا.امتحان میں ناکام ہو گیا تو خود کشی کر لی ۔کسی مقابلے میں ہار گیا تو خود کشی کر لی. قرض کے بوجھ تلے دب گیا تو خود کشی کر لی. پسندیدہ لیڈر یا کوئی چہیتا گلوکار مر گیا،تو خود کشی کرلی. قومی کرکٹ ٹیم میچ ہار گئی تو خود کشی کر لی. کوئی مناسب روزگار دستیاب نہ ہو سکا تو خود کشی کرلی۔ بجلی کا بل زیادہ آ گیا تو خود کشی کر لی۔

معیشت کی کمزوری اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان بھی ہو سکتی ہے۔حالات کی تنگی سے گھبرا کر خود کشی کرنے کی بجائے دل بڑا کریں اور ایسے معاملات کو آزمائش سمجھتے ہوئے صبر کریں
فرمایا :

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ

اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔
البقرة : 155

اس آیت مبارکہ کے آخری حصے “وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ” پر غور کریں اس میں یہ اشارہ ہے کہ حالات کی یہ تنگی عارضی ہے بالآخر صبر کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں بے شمار خوشیاں اور بشارتیں ہیں
دوسرے مقام پر فرمایا :

وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ

اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں
آل عمران : 140

ہر جاندار کو رزق دینا اللہ کے ذمے ہے

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ تمہارے، تمہاری اولاد کے اور ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور اگر تم رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو قتل کرو گے تو گویا کہ ایک ایسے نفس کو قتل کرو گے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے، سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔
هود : 6

ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے قرآن میں 90 جگہوں میں یہ پڑھا ہے
کہ اللہ تعالی نے مخلوق کے لیے رزق مقرر کیا ہے اور اسے اپنے ذمے لیا ہے
اور
صرف ایک جگہ پر پڑھا ہے کہ

{الشيطانُ يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء}،

شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے

فشككنا في قول الصادق في تسعين موضعاً ! وصدَّقنا الكاذبَ في موضعٍ واحد!.
[ذكره القرطبي في كتاب-قمع الحرص بالزهد والقناعة(ص60) الأثر رقم120]
تو ہم نے ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے شیطان کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین کرلیا

حالات کی تنگی میں اللہ کی طرف رجوع کریں

ایک مومن اور مسلم کا کام یہ ہے کہ حالات سے تنگ آکر دلبرداشتہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے
مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
البقرة : 156

یعقوب علیہ السلام کو دیکھ لیں، بیٹا گم ہو گیا ہے، لمبا عرصہ گزر گیا ہے، آنسو نکل نکل کر بینائی سے محروم ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود کیا فرماتے ہیں :
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
يوسف : 86

خود کشی کی ممانعت

خودکشی حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔
فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔
النساء : 29

اپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت یوں بیان کی کہ “اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے”
یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ حالات سے تنگ آکر خودکشی کیوں کر رہے ہو اپنے ساتھ بے حد رحم کرنے والے رب العزت پر بھروسہ رکھو وہ ضرور کشادگی پیدا کرے گا

اور فرمایا :

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
البقرة : 195

خودکشی کی وجوہات

خود کشی عموماً تین وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے
1 حالات سے تنگ آکر
اس کا تذکرہ اوپر بیان ہو چکا ہے

2 خوشی میں آکر
بعض خود کشیاں خوشی میں بھی ہوتی ہیں
مثال کے طور پر
شادی کے موقع پر فائرنگ کرتے ہوئے اپنے آپ کو گولی لگ گئی
پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے نیچے گر گیا
سیلفی کے چکر میں ٹرین کے نیچے آگیا یا پہاڑ سے پھسل گیا
تیز اور غیر محتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو گیا
ون ویلنگ کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا
پیسہ کمانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے پرخطر سمندری راستوں کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہوئے ڈوب گیا
نشہ میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا
شراب نوشی اتنی کرلی کہ برداشت سے باہر ہوگئی

3 لالچ میں آکر
مثال کے طور پر
ڈاکہ ڈال رہا تھا یا چوری کررہا تھا تو فائر لگا اور مرگیا یہ بھی خود کشی ہی ہے کیونکہ اس نے خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالا
دشمن سے پیسے لے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مجمعے میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا (یہ تو بدترین خودکشی ہے)

خودکشی کی یہ تینوں اقسام ہی حرام اور ناجائز ہیں

کیا ہمارا جسم ہماری ملکیت ہے کہ ہم جب چاہیں اسے قتل کردیں

اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ جسم تو میرا ہے، میری مرضی ہے جتنی دیر چاہوں دنیا میں رہوں اور جب چاہوں اپنے آپ کو قتل کرکے دنیا سے چلا جاؤں، تو اس کی یہ بات غلط ہے
صحیح بات یہ ہے کہ یہ جسم ہماری ملکیت نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے کیونکہ اس کا مالک وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ
اے انسان! تجھے تیرے نہایت کرم والے رب کے متعلق کس چیز نے دھوکا دیا؟
الإنفطار : 6
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ
وہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، پھر تجھے برابر کیا۔
الإنفطار : 7
فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ
جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔
الإنفطار : 8

ہم اپنے جسم کے مالک کیسے بن سکتے ہیں

یاد رہے کہ گندے گٹر کے گندے کیڑے کو بھی اسی رب العزت نے پیدا کیا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے تو اگر وہ ہمیں کیڑے کی شکل میں پیدا کردیتا تو ہم کیا کر سکتے تھے؟
کیا یہ اس کا احسان نہیں، کہ اس نے ہماری ڈیمانڈ کے بغیر ہی ہمیں انسان بنا دیا ہے، اب ہم شکر ادا کرنے کی بجائے اپنے تئیں اس کے مالک بنے رہیں اور من مرضی کریں تو یہ کس قدر زیادتی ہے

اللہ تعالیٰ چاہیں تو انسانی شکل مسخ کر دیں

ہماری ملکیت کی تو یہ اوقات ہے کہ ہمارے اعضاء کی سلامتی پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں بدل دیں، پھر نہ وہ (آگے) چل سکیں اور نہ واپس آئیں۔
يس : 67

اور فرمایا

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی آنکھیں مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو کیسے دیکھیں گے؟
يس : 66

ایک ملحد کا عجیب واقعہ

صاحبِ کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی

 

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ

کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟
الملك : 30

تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین)

چکھنے کی حس جواب دے گئی

بالکل اسی طرح ایک بہت بڑے سیٹھ مالدار آدمی کی زبان کی چکھنے کی حس اللہ تعالی نے ختم کر دی اب اس کی زبان کوئی بھی ذائقہ محسوس نہیں کرتی تھی نہ میٹھا نہ پھیکا نہ کڑوا نہ نمکین، وہ جو بھی کھاتا بس کھاتا ہی تھا اسے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ میں کیا کھا رہا ہوں اس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا مگر اس کی وہ حس واپس نہ آ سکی

تو پھر یہ بے بس انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے جسم اور اعضاء کا مالک ہوں

ہم تو اپنے آپ سے موت نہیں ٹال سکتے
دعویٰ ہے کہ میرا جسم میری مرضی جبکہ حالت یہ ہے کہ اپنے آپ کو موت سے نہیں بچا سکتے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

کہہ دے پھر اپنے آپ سے موت کو ہٹا دینا، اگر تم سچے ہو۔
آل عمران : 168

دوسرے مقام پر فرمایا :

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ
تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

سو اگر تم (کسی کے) محکوم نہیں تو کیوں تم اس(جان سے نکلی ہوئی روح) کو واپس نہیں لے آتے، اگر تم سچے ہو۔
الواقعة : 86،87

اپنے نفس کو قتل کرنا تو دور کی بات ہم اس کے کسی ایک عضو میں بھی اپنی مرضی سے ناحق تصرف نہیں کر سکتے

فرمایا

إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا

بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
الإسراء : 36
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.

’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘

خود کشی کیا، موت کی تمنا کرنا بھی منع ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلِ : اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي “.

بخاری : 5671

خود کشی کے نقصانات

خودکشی کے دینی اور دنیاوی بے شمار نقصانات ہے
دنیاوی طور پر سب سے پہلے تو یہ کہ انسان اپنی ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے
اور دوسرے نمبر پر یہ کہ اپنے لواحقین کے لیے طویل صدمے کا باعث بنتا ہے، والدین، بیوی ،بچوں، بہن بھائیوں کے لیے اس کی موت ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے
تیسرا یہ کہ ایسے واقعات کا ماحول اور معاشرے پر بہت برا اثر پڑتا ہے

خود کشی کرنے والا ایمان بالقدر کا انکاری ہوتا ہے

اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ گویا خود کشی کرنے والے نے تقدیر پر ایمان نہ رکھا، اپنے مقدر پر صبر نہ کیا حالانکہ اس حوالے سے واضح حکم موجود ہے

أَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ

کہ اچھی اور بری ہر طرح کی تقدیر پر ایمان رکھا جائے
اور اس پر راضی رہا جائے

رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا

خود کشی کرنے والے کا اللہ تعالیٰ کے متعلق گمان اچھا نہیں ہوتا

خودکشی کرنے والے نے گویا کہ یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے حالات تو ٹھیک کرنے ہی نہیں ہیں میں نے ایسے ہی پستے رہنا ہے لھذا خودکشی کرکے اس دنیا کی مصیبتوں سے باہر نکلتا ہوں
جب کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنے کا حکم ہے
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ‘ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز پہلے فرمایا تھا:

لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ

(ابو داؤد، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،3113)
” تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ عمدہ گمان رکھتا ہو۔“

عمران محمدی