بقیہ السلف مولانا حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ ( مدیر: ادارة الاصلاح البدر، بونگہ بلوچاں) کامختصر تعارف

سیرالرِّجَالِ أَحَبُّ إِلَى مِنْ كَثِيرٍ مِنَ الفقہ
(نیک) لوگوں کے حالات پڑھنا مجھے فقہ کے بہت سارے ابواب سے محبوب ہے۔
دین اسلام کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے دعوت وتبلیغ کا کام جس قدر ضروری تھا، آج اُمت ِمسلمہ ا س قدر اسے آگے پھیلانے میں سستی سے کام لے رہی ہے۔ انبیاے کرام علیہم السّلام کے دعوتی مشن کو فروغ دینے کے لئے ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے خوش نصیب بندے پیدا ہوئے جنہوں نے معاشرے کی اصلاح، شرک وکفر کے ردّ، ظلم وناانصافی، قتل وغارت گری، فحاشی و عریانی کے خاتمے اور تعلق باللہ میں رسوخ وپختگی کے لئے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو فروغ دینے میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔
ایسے خوش نصیب حضرات میں ہمارے ممدوح متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر اور ادارة الاصلاح البدر، بونگہ بلوچاں نزد پھولنگر ضلع قصور کے بانی، ولی ٔکامل نمونۂ سلف حضرت حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی رحمة اللہ علیہ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ آپ نے دنیا ومافیہاسے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کو اُمت ِمسلمہ کی اصلاح و تربیت کے لئے وقف کررکھا تھا۔ آپ کی شخصیت غیر متنازع اور ہرطبقے اور ہر فرد کے لئے قابل احترام تھی۔ آپ کو جس نے ایک بار دیکھا، وہ آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے ایسی حلاوت،گفتگو میں متانت اور اس قدر شرینی رکھی تھی، خصوصاً جب آپ اپنے مخصوص انداز میں قرآنِ مجید کی تلاوت فرماتے تو سخت سے سخت دل میں نرمی پیدا ہو جا تی تھی ۔ آپ کی شخصیت نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی آئینہ دار تھی۔کسی کو کافرکہنا،کسی کو منافق قراردینا،کسی کو بے دینی کی حدوں میں داخل کردینا یا کسی پر شرک کا فتویٰ لگانا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ آپ کسی کے بارے میں غیبت اور ناشائستہ گفتگو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
●محمد یحییٰ عزیز میر محمدی بن حافظ محمد عظیم بن نواب خان بن روشن دین 12؍دسمبر 1927ء کو ضلع لاہور، حال قصور کے معروف گاؤں میر محمد میں پیدا ہوئے ۔
خاندانی پس منظر
آپ کا تعلق راجپوت برادری سے تھا۔آپ کاخاندان عرصۂ درازسے ضلع قصور کے گاؤں میر محمد میں آباد ہے۔گردونواح کے تقریباً تمام دیہات میں ان کے خاندان کا ہراعتبارسے احترام موجودہے۔ دیانت داری، تقویٰ،سنت ِرسول کی محبت، شرم وحیا،خیرخواہی، قرآن و حدیث کی تدریس جیسی خوبیوں سے اللہ تعالیٰ نے خاندانِ میر محمد کو نواز رکھا ہے۔
ابتدائی تعلیم
والدین کی شرافت اور نیکی کے اثرات نے ان کی تربیت میں کافی مدددی۔ بچپن ہی سے انہیں نیک کام کرنے اور بھلائی والے اعمال میں حصہ لینے کا شوق تھا، گھر میں ہی رہتے ہوئے قرآنِ مجید کی تعلیم کا آغاز اپنے چچا حافظ دوست محمد سے کیا۔
پھر مزید تعلیم میر محمد میں قائم مدرسہ میں حاصل کی، یہاں حفظ ِقرآن اور مشکوٰة شریف کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد امر تسر چلے گیے اور مدرسہ غزنویہ امرتسر میں زیر تعلیم ہی تھے کہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔تقسیم ہند کے بعد کچھ عرصہ یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ بعدازاں پاکستان آکر اپنے نانا جی کے شاگردِ خاص مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمة اللہ جو گوندلا نوالہ ضلع گوجرانوالہ میں تدریس پر مامور تھے، ان سے کچھ عرصہ اکتسابِ فیض کیا۔ پھر شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمة اللہ جو اس وقت ٹاہلی والی مسجد، گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے، ان کے حلقہ تدریس میں شامل ہو کر بخاری شریف ودیگر کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوا
مشہور اساتذہ کرام
(1) مولانا حافظ دوست محمد رحمة اللہ علیہ،
(2) مولاناحافظ محمد بھٹوی رحمة اللہ علیہ ،
(3) مولانا عبداللہ بھوجیانی رحمة اللہ علیہ ، (4)مولانا عبدالرحیم بھوجیانی رحمة اللہ علیہ،
(5)مولانا محمد حسین ہزاروی رحمة اللہ علیہ،
(6)شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ،
(7)شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف
بھوجیانی رحمہ اللہ،
(8)شیخ الحدیث مولانا عبدہ الفلاح رحمہ اللہ،
(9)مولانا نیک محمد رحمة اللہ علیہ ،
(10)شیخ الحدیث مولانا محمد موسی خان رحمہ اللہ،
آپکے رفقاء
(1) شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ (مہتمم دار الحدیث راجووال اوکاڑہ) (2)مولانا ابوبکر صدیق سلفی (صدر مدرّس مسجد نجم اہلحدیث لاہور)
(3) حافظ بشیر احمد بھوجیانی رحمة اللہ
(4)محمد یحییٰ شرقپوری رحمة اللہ(شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کے والد گرامی )
(5)پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ(بانی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی )
(6)مولانا صوفی عائش محمد رحمہ اللہ(ماموں کانجن )
(7)مولانا حافظ محمد الیاس اثری حفظہ اللہ(گوجرانوالہ: امیر محمدی تبلیغی جماعت پاکستان )
(8)فضیلتہ الشیخ قاری محمد عزیر رحمہ اللہ(لاہور )
خطابت
اپنے والد ِگرامی کے جاری کردہ مدرسہ حفظ القرآن میر محمد، مدرسہ ضیاء السنہ راجہ جنگ قصور اور 1973ء سے لے تقریبا 2004تک مرکز البدر، ادارہ الاصلاح بونگہ بلوچاں ضلع قصور میں دعوت وتبلیغ کے ذریعے دین حنیف کی اشاعت وترویج میں مصروفِ کار رہے ۔
زندگی کا ایک یادگار واقعہ
بچپن میں ایک دفعہ سکول سے گھر آرہے تھے کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جس نے بھاری گٹھڑی اُٹھائی ہوئی تھی۔ ضعیف العمری کی وجہ سے بڑی مشکل سے چل رہی تھی۔ تقریباًچار میل کے فاصلے پر ان کا سکول تھا جو ان کے گھر سے دور تھا، ان کے پوچھنے پر اس بوڑھی خاتون نے بتایا کہ میں نے گاؤں میر محمد جانا ہے ۔ انہوں نے اس کا بوجھ اُٹھایا اور اس کے گھر تک پہنچایا ۔اس وقت بوڑھی عورت نے ان کو دعائیں دیں تو یہ حیران رہ گئے کیونکہ ان کی نظر میں وہ اتنا بڑاکا رنامہ نہیں تھا جس کی ان کو اتنی زیادہ دعائیں مل گئیں ۔ اس وقت سے ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ خدمت ِخلق اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اس لئے ہر دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ علماے کرام کو ان کا مشورہ ہے کہ وہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمت ِخلق میں بھی حصہ لیا کریں ، کیونکہ ان کی تبلیغ بھی اُس وقت مؤثر ہوگی جب وہ ایک غریب وبے کس شخص کے ساتھ ہمدردی کریں گے، ورنہ ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیسے دعوت دینے والے علما ہیں جنہیں ہمارے دکھ وغم کا احساس ہی نہیں ۔
آپ کے تلامذہ
شاگردوں کی تعداد تو ملک اور بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی ہے۔ چند معروف شخصیات
(1) مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمة اللہ،
(2)شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم رحمة اللہ (سابق صدر مدرّس جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)
(3)قاری محمد یحییٰ مدرّس جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ،
(4)بطل حریت مولانا میاں محمد جمیل حفظہ اللہ(کنونیئر: تحریک دعوت توحید پاکستان )
(5)مولانا عبدالقیوم ملہی رحمہ اللہ(خطیب: کامونکی)
(6)اُستاذالقراء قاری محمد صدیق الحسن رحمة اللہ
(7)قاری محمد یوسف میر محمدی صاحب
(8)مولاناقاری عبدالرحیم میرمحمدی، صاحب
(9)خطیب بے بدل مولانا شریف الہ آبادی رحمہ اللہ۔
(10)حضرت مولانا حافظ فیروز احمد رحمہ اللہ۔
تصنیفی کام
دعوت وتبلیغ کی مصروفیات کی بنا پر اس سلسلہ میں کوئی خاص کام نہیں ہوسکا، البتہ چند تحریریں درج ذیل ہیں جو کتابچوں کی شکل میں شائع ہوئیں :
●تبلیغ وتربیت کے پانچ اُصول
●تجوید کی پہلی آسان کتاب
●آسان قاعدہ وغیرہ
علاوہ ازیں قرآنِ کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر 45 کیسٹوں میں ریکارڈ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے
وفات
کچھ عرصہ سے آپ شوگر ودیگر امراض میں صاحب ِ فراش تھے۔ علاج معالجہ سے صحت میں کبھی کچھ بہتری آجاتی۔ بالآخر ربّ ِکریم کے اٹل فیصلے کی گھڑی یکم نومبر2008ء کو بعد نمازِ عشاء آپہنچی جس کے آگے ہر شاہ وگدا کو سرخم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون!
اگلے روز صبح11بجے مرکز البدر، بونگہ بلوچاں میں آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ(مہتمم مرکز الدعوۃ ستیانہ بنگلہ )نے کروائی۔ نمازِ جنازہ میں ملک بھر سے شیوخ اہلحدیث، علماے کرام، قراے عظام، دینی طلبہ اور دینی تنظیموں کے قائدین وکارکنان نے ہزاروں کی تعد اد میں شرکت کی۔ جنازے میں ہرآنکھ اشکبار تھی اور آپ کی مغفرت وبلندیٔ درجات کے لئے دعا گو۔
دوسری بار آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے آبائی گائوں میر محمد میں ادا کی گئی۔ وہیں پر آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔آپ کی نمازِ جنازہ کے دونوں مناظر تاریخی حیثیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دینی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو جنت ِفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین!

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم: جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھيں: قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ(فاضل مدینہ یونیورسٹی )