قاری المقری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ (مدیر:کلیۃ القرآن الکریم والتربية الاسلامیہ بونگہ بلوچاں پھول نگر ضلع قصور ) کا مختصر تعارف

إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيحَ لِلْخَيْرِ مَغَالِيقَ لِلشَّرِّ، فَطُوبَى لِمَنْ جَعَلَ اللهُ مَفَاتِيحَ الخَيْرِ عَلَى يَدَيْهِ،
بعض لوگ خیر کی کنجی اور برائی کے قفل ہوتے ہیں تواس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجیاں رکھ دیں ہیں۔

سرزمین پاکستان نے دنیا کو اتنے علماء، فقہاء، مفسرین، دینی سکالرز اور مذہبی پیشوا دیے ہیں کہ اقوام عالم ان کی بصیرت، فراست، للہیت اور قابلیت کے گن گاتی ہیں انہی نابغہ شخصیت میں ایک نام قاری المقری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ کا ہے جو بلا شبہ اپنے علم و عمل کی وجہ سے ہر خاص و عام کی انکھوں کا تاراہیں۔
قاری صہیب احمد بن حافظ عبداللہ 1975 کو موضع میرمحمد (ضلع قصور)میں پیدا ہوئے
والد گرامی حافظ محمد عبداللہ رحمہ اللہ جو باعمل عالم اور تقوی شعار بزرگ تھے۔ شرافت ونجابت اورصاف ستھرے کردار کی وجہ سے نہ صرف اپنے علاقے میں بلکہ
پورے پنجاب کے دینی حلقوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت و تکریم کا مقام عطا فرمایا تھا۔
آغاز تعلیم
قاری صہیب احمد صاحب نے ابتدائی قاعدہ والد گرامی سے پڑھا اور ناظرہ قرآن بھی گھر میں والدین سے پڑھا۔ والد چونکہ حافظ قرآن تھے، اس لیے لائق بیٹے کو بھی روزانہ کوئی نہ کوئی آیت یاد کرانے کی کوشش کرتے۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتے تو انھیں ساتھ لے جاتے ۔ عمر کی کچھ منزلیں طے کیں تو مقامی سرکاری سکول میں داخل کرادیاگیا۔اور ساتھ ہی حفظ قرآن کا سلسلہ بھی جاری کردیا۔ چند پارے قاری محمد اسحاق صاحب سے حفظ کیے ۔ پھر ان کے گاؤں میر محمد کے قریب قصبہ راجہ جنگ میں مدرسہ “ضیاء السنہ”جاری تھا، جس میں ایک معروف
استاذ قاری محمد صدیق الحسن بچوں کو قرآن مجید حفظ کراتے تھے ، قاری صہیب احمد کے والد مکرم نے بیٹے کو اس مدرسے میں داخل کراودیا۔
چند پارے وہاں یادکیے۔ پھر واپس گاؤں آگئے۔ سکول کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔
اس طرح گاؤں کے سکول میں پرائمری اور پھر مڈل پاس کیا۔ مڈل پاس کرنے کے بعد “گورنمنٹ ہائی” سکول راؤوالا میں داخلہ لیا۔ سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ روزانہ قرآن مجید بھی حفظ کرتے رہے۔ اسی سکول سے میٹرک پاس کیا۔ پھر ڈگری کالج قصور میں داخلہ لیا ۔ کالج کی تعلیم جاری تھی کہ ان کے بڑے بھائی قاری المقری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ “مدینہ یونیورسٹی” سے تعلیم مکمل حاصل کرکے واپس وطن آئے
گھر کے زیادہ تر افراد چاہتے تھے کہ کالج کی تعلیم جاری رہنی چاہیے لیکن قاری محمد ابراہیم صاحب اور والد گرامی نے کالج کی تعلیم چھڑوا کے قرآن مجید حفظ کرنے اور دینی تعلیم حاصل کرنے پر لگا دیا چنانچہ موصوف نے کالج چھوڑ دیا، اس وقت یہ 20 پارے حفظ کرچکے تھے۔ رمضان کے بائیس دنوں میں انھوں نے قاری محمد ابراہیم صاحب سے قرآن مجید کے باقی دس پارے حفظ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عید کے بعد حفظ کی تکمیل ہوئی اور
شوال کے پہلے عشرے میں تقریب کی گئی۔
مزید حصول علم کے لیے سفر
حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب کے معروف ادارے جامعہ رحمانیہ ( جسے اب
جامعہ لاہور الاسلامیہ کہا جاتا ہے) کے “کلیۃ القرآن الکریم” میں داخلہ لیا اور یہاں برادر اکبر قاری محمد ابراہیم صاحب سے قرأت السبع اور قرأت العشرہ، کی تکمیل کی۔ اسی جامعہ میں مروجہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ ایف اے ، بی اے اور فاضل عربی کا امتحان پاس کیا ۔ یہ تمام امتحانات اس وقت کے جامعہ رحمانیہ نیو
گارڈن ٹاؤن بابر بلاک لاہور میں پاس کیے۔
قاری صہیب احمد صاحب نے جامعہ رحمانیہ (لاہور) میں مندرجہ ذیل اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔
(1) شیخ الحدیث حافظ ثناءاللہ اللہ مدنی رحمہ اللہ۔
(2) فضیلتہ الشیخ طاہر محمود صاحب
(3) فضیلتہ الشيخ ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد صاحب۔
(4)فضیلتہ الشیخ محمد شفیق مدنی حفظہ اللہ ۔
(5) فضیلتہ الشیخ قاری عبد الحلیم صاحب۔
(6)فضیلتہ الشیخ عبدالرشید خلیق رحمہ اللہ۔
(7)فضیلتہ الشیخ محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ۔
(8)فضیلتہ الشیخ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ۔
(9)فضیلتہ الشیخ عبد السلام ملتانی صاحب۔
جامعہ رحمانیہ کے زمانہ طالب علمی میں قاری صہیب احمد کے مشہور ہم جماعت تھے
(1)فضیلتہ الشیخ محمد اجمل بھٹی (پیغام ٹی وی لاہور)
(2)فضیلتہ الشیخ محمد شفیع طاہر (مدرس (جامعہ بیت العیق)
(3)فضیلتہ الشیخ قاری سلمان احمد حفظہ اللہ(مدرس :کلیۃ القرآن الکریم والتربية الاسلامیہ بونگہ بلوچاں)
مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ
جامعہ رحمانیہ کے آٹھویں سال میں تھے کہ مدینہ یونیورسٹی کے شیوخ کی سرپرستی میں ایک دورہ “تدریبیہ” منعقد ہوا، جس کا دورانیہ ایک ماہ تھا۔ اختتام دورہ پر امتحان ہوا جس کا نتیجہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
●وہاں چار سال تعلیم حاصل کرتے رہے اور ممتاز پوزیشن میں کامیاب ہوئے۔
آخری سند مدینہ منورہ کے گورنر کے ہاتھوں وصول ہوئی۔
زمانہ طالب علمی میں جو اعزازات ملے وہ ایک قابل رشک اور قابل ذکر بات ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے
(1) گورنمنٹ ہائی سکول کی تعلیم کے دوران نویں جماعت کے مقابلہ تلاوت قرآن میں پورے
(ضلع قصور )میں اول پوزیشن حاصل کی۔
(2)جامعہ رحمانیہ میں دوران طالب علمی کے آخری چار سال امامت کے فرائض سر انجام دیے ۔
(3)متعدد تقریری مقابلوں میں متعدد انعامات حاصل کیے۔
(4)جامعہ کے آخری سال تجوید کی پوری جماعت کی تدریس ان کے سپرد رہی۔
(5) وقف القرآن، شاطبیہ، اصول، اطیب المنح فی علم المصطلح، چھے مہینے جامعہ میں پڑھاتے رہے۔
(6)جاوید غامدی کے قرأت قرآنیہ پر اعتراضات کے جواب میں ماہنامہ محدث
(لاہور )میں تین قسطوں پر مشتمل مضمون لکھا۔
(7)مدینہ یونورسٹی کی جامع مسجد میں دو سال امامت کروائی۔
(8)تین سال تک سعودی ریڈیو میں قرأت سبعہ کے حلقات کی ریکارڈنگ کرائی۔
(9)مدینہ یونیورسٹی کی جانب سے رمضان اور حج کے مواقع پر پاکستانی حضرات کو درس دیتے رہے۔
(10)طلباء میں تلاوت و فہم قرآن کا ذوق پیدا کرنے کے لیے ہر ہفتے بزم ادب کے انعقاد کا اہتمام کیا۔
(11) مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے سعودی حکومت کے دار الحکومت ریاض میں سیرۃ النبی کے موضوع پر لیکچر دیے اور ترجمہ قرآن کی ریکارڈنگ کرائی۔
(12) مدینہ یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں نماز تراویح میں پہلا پورا قرآن مجید جامع مسجد “احد “میں، پھر
مدینہ یونیورسٹی کی جامع مسجد میں اور آخری سال ریاض کی جامع الفاروق میں سنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
تدریس خدمات
مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور ابھی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ہی تھا کہ ریاض کے اہل علم کے شدید اصرار پر واپس چلے گئے، وہاں امامت اور حلقات قرآنیہ کے قیام کی ذمہ داری سنبھالی اور علوم شرعیہ کے درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے سیکرٹری کے اصرار
پر تدریس کے علاوہ جامع ابن باز میں نائب امام کا فریضہ بھی سر انجام دینے لگے۔ بعد ازاں پھر پاکستان آگئے۔ اس زمانے میں مشہور عالم دین حافظ محمد یحیی میر محمدی (جو ان کے ماموں
تھے) انھوں نے ان کو وَاجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ”کی دعا کے ساتھ
پاکستان آنے اور مرکز ادارۃ الاصلاح ( بنگہ بلوچاں) کا کام سنبھالنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے اور ان کے بڑے بھائی قاری محمد ابراہیم میر محمدی نے ان کے
حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مرکز میں خدمات سر انجام دینے لگے۔
قاری محمد ابراہیم اور قاری صہیب احمد نے یہاں “کلیۃ القرآن الکریم والتربية الاسلامیہ” کے نام سے ادارہ قائم کیا اور منصوبہ یہ بنایا کہ اس ادارے کا فارغ التحصیل به یک وقت عالم دین بھی ہو اور
بہت اچھا قاری بھی ہو۔ جب اس منصوبے کے تحت انھوں نے مرکز میں تدریس کا آغاز کیا تو صرف دو طالب علم اس میں داخل تھے۔
اس پر بہت سے لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ ان دو بچوں کے لیے مکہ اور مدینہ کی سکونت ترک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہیں رہتے پیسے بھی کماتے اور مقدس مقامات میں لوگوں کو تعلیم بھی دیتے ۔ لیکن اللہ کی رحمت کا دائرہ لامتناہی ہے۔ وہ اپنے دین کو دنیا میں
پھیلانے کے لیے ایسےاسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جن کا انسان کو تصور بھی نہیں ہوتا۔
●ابتدا میں قاری صہیب احمد نماز کے بعد خود ہی درس قرآن کا اہتمام کرتے، تدریس کے لیے کتابیں بھی خود ہی لاتے اور مدرسے کے دیگر چھوٹے موٹے کام بھی خود ہی انجام دیتے ۔ پھر حالات نے کروٹ لی۔ پہلے قاری محمد شفیق صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہ بچوں کو قرآن مجید حفظ کراتے تھے۔ پھر قاری سلمان احمد صاحب اور پھر قاری محمد ابراہیم صاحب نے درس و تدریس اور قرأت وتجوید کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ رفتہ رفتہ معاملہ آگے بڑھتا گیا اور کام کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ اس طرح حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی حفظہ اللہ کے دلی ارادوں کی تکمیل ہونے لگی۔ اب اللہ کی مہربانی سے وہاں 1000 سے زیادہ طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ شعبہ حفظ قرآن بھی ہے، قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ کا انتظام بھی ہے۔
وفاق المدارس السلفیہ کے مطابق درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے باقاعدہ امتحانات ہوتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کا انتظام بھی ہے۔ کھلی فضااور صحت افزا مقام میں یہ دار العلوم اپنی مثال آپ ہے۔ بہترین “دار الاقامہ” ہے۔ 36 اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ بچیوں کو پڑھانے کے لیے خواتین ٹیچرز کا انتظام ہے۔ نماز کے لیے وسیع مسجد دار العلوم سے الگ ہے۔یہ پہلا ادارہ ہے جس میں طالبات کو قرأت عشرہ کی تکمیل کرائی جاتی ہے۔
اس ادارے سے اب تک سیکڑوں طلبہ فن تجوید سے بہرہ مند ہوچکے ہیں۔
قاری صہیب احمد صاحب نے حسب ذیل اسناد حاصل کیں
(1)شهادت حفظ قرآن الکریم۔
(2)شهادت تجوید القرآن الكريم۔
(3)شهادت قراءات العشر المتواتره۔
(4)اجازة القراءات العشر التواتر۔
(5)شهادت علوم الشرعيه۔
(6)شہادت العالیہ فی العلوم الشرعيه۔
(7)الاجازة العالية في كلية القرآن الكريم والدراسات الاسلامیه بالجامعه الاسلامیه مدینه منوره سال 1999۔
(8)شهادة الطالب المثالي في كلية القرآن الكريم والدراسات الاسلاميه بالجامعة الاسلاميه بالمدينة المنوره
سال 1999.
حالیہ مناصب اور سرگرمیاں
(1)ڈائریکٹر کلیة القرآن الكريم والتربية الاسلامیہ بونگا بلوچاں، پھول نگر ضلع قصور۔
(2)جنرل سیکرٹری ادارۃ الاصلاح ٹرسٹ پاکستان۔
(3)نگران جمعیت تحفیظ القرآن الكريم والحدیث الشریف پاکستان۔
(4) فنانس سیکرٹری پیغام ٹی وی
قاری صاحب کی تصانیف
(1)نخبة الصحيحين: (ابتدائی درجوں کے طلبا کے لیے 100حدیثوں کا انتخاب)
(2)مومن کی زینت داڑھی۔
(3)عورت کا زیور پردہ۔
(4)مومن کی نماز۔
(5)قرآن مجید کے حقوق
(6)آپ عمرہ اور حج کیسے کریں؟
(7)آداب زندگی 2جلدیں۔
(8) دعوت دین کے بنیادی اصول
(9) فن قراءآت میں عربی زبان میں کتابچے
قاری صہیب احمد صاحب کی چند مزید خدمات ملاحظہ کریں
●نہایت مسرت کی بات ہے کہ اس مرکز میں بیک وقت کئی کام ہو رہے ہیں، تدریسی بھی تصنیفی بھی،
●حفظ قرآن اور تجوید کا بھی، تبلیغ کا
بھی سعودی عرب میں قیام کے دوران انھوں نے ٹی وی پروگرام کیے۔
●مکتب الدعوہ ریاض نے ان سے پورا قرآن مجید مع اردو ترجمہ ریکارڈ کرایا۔
●تسجيلات الخالد الاسلامیہ مدینہ منورہ نے مکمل قرآن ریکارڈ کرایا۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو دیار مقدس میں اللہ نے ان کو عطا فرمایا۔
علاوہ ازیں کئی مرتبہ انھیں کویت کی” وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیہ “کی
طرف سے نماز تراویح اور قیام اللیل پڑھانے کے لیے بلایا گیا۔ کافی عرصے سے یہ پاکستان کے ٹی وی چینل ”پیغام “میں اخلاقیات کے سلسلے میں پروگرام کر رہے
ہیں،جو اپنے انداز کا ایک اہم پروگرام ہے۔ اسی چینل سے تجوید قرآن کا پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے
، جس کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ یہ قاری صاحب ممدوح کا ایک منفرد نوعیت کا پروگرام ہوگا۔
● قاری صاحب سے دینی کتابوں کی نشر و اشاعت کے مشہور عالمی ادارے دار السلام نے پورے قرآن مجید
کی ریکارڈنگ کرائی۔ لغت عربی کے سلسلے میں بھی بعض اہم چیزیں ان سے اس ادارے نے ریکارڈ کرائیں۔
ان کاشمار فن تجوید کے ممتاز علماء اور زبان عربی کے نامور اساتذہ میں ہوتا ہے۔
بلا شبہ قاری صاحب عربی بولتے ہیں تو خالص عرب کا گمان گزرتا ہے۔ قرآن مجید کے سلسلے میں انھوں نے جو خدمات سر
انجام دی ہیں،اور دے رہے ہیں وہ بےحداہمیت رکھتی ہیں ،اللہ تعالٰی ان کی اور ان کے برادران اکبر محترم
قاری محمد ابراہیم صاحب او قاری سلمان احمد اور ان کے رفقائے کار و معاونین کی
خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور ان کی علمی اور تدریسی سرگرمیوں میں مزید اضافہ فرمائے۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم :جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھيں: مولانا یحیی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ