آٹھ رکعت تراویح اور احناف!

(1): ابن ھمام حنفی نے لکھا ہے ۔
اس سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان گیارہ رکعات مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے ۔
(فتح القدیر ج 1 ص 407)

(2) : ابن نجیم المصری نے ابن ھمام حنفی سے بطور اقرار نقل کیا ہے
پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے (آٹھ رکعتیں) مسنون اور بارہ مستحب ہوجاتی ہیں ۔
(البحر الرائق ج 2 ص 295)

(3) : طحطاوی نے کہا ہے
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعتیں پڑھیں ہیں ۔
(حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار ج 1 ص 295)

(4) : خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے اعلان کیا ۔
اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے ۔اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے
(براھین قاطعہ ص 195)

(5) : انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ
“ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات”
اس بات کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعت تھی ۔ ( العرف الشذی ج 1 ص 166)

انور شاہ کشمیری دیوبندی اور قیام رمضان یعنی تراویح 
‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي.

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح یا تہجد کی نماز رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
(صحیح البخاری : 2013)

یہ حدیث نص صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت (11) سے زیادہ نہیں پڑہتے تھے ۔
اس حدیث کی روشنی میں انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ
“ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات”
اس بات کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعت تھی ۔ ( العرف الشذی ج 1 ص 166)
اور مزید فرماتے ہیں ۔
“و اما النبي صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و اما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و على ضعفه اتفاق ”
اور مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ (8) رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور بیس (20) رکعات والی جو حدیث آپ سے مروی ہے تو وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے (العرف الشذي ج 1ص 166)

یعنی دیوبندیوں کے اکابر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح نماز آٹھ رکعت تھی ۔تو وہ لوگ یہاں سے عبرت حاصل کریں جو بیس (20) رکعات ثابت کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تحریف کرتے ہیں ۔اور صحیح مسند احادیث کا انکار کرتے ہوئے کچھ نہیں لھراتے ۔اور نہ ہی ان کو اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ڈر ہوتا ہے کہ ہمیں بھی ایک دن اٹھ کر حساب دینا ہے ۔

 

تحریر: افضل ظہیر جمالی