سوال

شوہر نے آج سے تقریبا اڑھائی سال پہلے آپس کے گھریلو جھگڑے کی وجہ سے اپنی بیوی کو 1 طلاق دی تھی۔ بیوی اس وقت حالت حیض میں تھی پھر ہفتہ 10 دن بعد رجوع کر لیا تھا، دوبارہ نکاح نہیں کیا تھا۔ابھی چند دن پہلے 8 یا 10 اکتوبر 2022 کو لڑائی کی وجہ سے پھر مزید 2 اکٹھی طلاقیں دے دیں. یعنی اب کل 3 طلاق ہو چکی ہیں ،دونوں کے 4 بچے ہیں، اب پچھتاوا ہو رہا ہے پھر سے رجوع کرنا چاہ رہے ہیں، تو کیا شرعا رجوع کر سکتے ہیں یا نہیں؟طریقہ کار پر بھی رہنمائی درکار ہے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہاں دو مسئلے ہیں، حیض کی حالت میں طلاق، اور دوسرا بیک وقت ایک سے زائد طلاقیں۔
 حیض کی حالت میں طلاق دینا اگرچہ غیر شرعی ہے ، لیکن یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تھی (صحیح البخاری:5251) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقاعدہ طلاق شمار کیا تھا۔(مسند طیالسی:68، سنن دارقطنی:3867)
 دوسری بات:معمولی گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر ایک سے زائد مرتبہ طلاق دے دینا ہماری عادت بن چکی ہےحالانکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)
البتہ کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں بیک وقت طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229]

’ طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے‘۔
اگر تینوں طلاقیں بیک وقت شمار کرلی جائیں، تو ’روک رکھنے‘ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:

{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]

’ اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ‘۔
اگر تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ شمار کرلی جائیں، تو پھر خاوندوں کے لیے عدت شمار کرنے اور حساب رکھنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا!
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق، 2/ 277، اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار)
3۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر )
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التأویل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔
 مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ نے جو پہلے حیض کی حالت میں طلاق دی تھی، وہ واقع ہوچکی تھے۔ اب دوبارہ پھر آپ نے جو دو اکٹھی طلاقیں دی ہیں، وہ مزید ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ لیکن آپ کے پاس ابھی بھی رجوع کا حق موجود ہے۔ کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع کا حق موجود ہوتا ہے۔ البتہ ایک گزارش ہے کہ رجوع کرنے سے پہلے اچھی طرح اپنے مسائل کو حل کریں، تاکہ جس طرح پہلے طلاق کی نوبت آئی ہے، اب دوبارہ وہی معاملہ نہ بنے۔
 رجوع کا طریقہ کار یہ ہے کہ یا تو زبان سے بول کر کہہ دے کہ میں اپنی بیوی سے رجوع کرتا ہوں، یا پھر عملا اس کے ساتھ رہن سہن، اور سونا شروع کردے، تو یہ بھی رجوع کی ہی صورت ہے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ