سوال

میری اور میری بہن کی شادی وٹہ سٹہ کی بنیاد پر ہوئی۔میری شادی کو 16 سال اور میری بہن کی شادی کو 18 سال ہو چکے ہیں۔میری ایک سال کی بیٹی بھی ہے۔ میں اور میری بیوی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔میری بیوی اپنا میکے گئی ہوئی تھی۔اچانک میری بہن کے سسرال میں گھر یلوجھگڑا ہوا۔میری بہن ناراض ہو کر میکے آ گئی، اور طلاق کا تقاضا کیا۔میرے گھر والوں نے مجھے بھی بیوی کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔جس میں میری بیوی اور بیٹی کا کوئی قصور نہیں تھا۔میرے بھائیوں نے جرگہ بلایا اور میری نیت بیوی کو چھوڑنے کی نہیں تھی۔اور بہنوئی بھی اپنی بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک ہی مجلس میں ایک ہی وقت زبردستی میں نے روتے ہوئے، تین بار طلاق دی۔میرے بہنوئی نے بھی روتے ہوئے تین طلاق دی۔ یہ واقعہ 14 ستمبر 2022 کو پیش آیا۔ میری نیت بیوی کو چھوڑنے کی نہیں تھی،اس سے پہلے جب بھی ہماری کبھی لڑائی ہوئی۔میں نے طلاق کا لفظ نہیں کہا۔اور نہ ہی پہلے میں نے کبھی طلاق دی،میں اور میرا بہنوئی رجوع کرنا چاہتے ہیں۔برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ محمد سعید ولد حاجی فرید
راشد علی ولد ملہار خان
تحصیل سوئی ضلع ڈیرہ بگٹی

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ واقع ہوتے ہیں ، خاندانی چپقلش اور گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر دو گھر اجاڑنے میں ہم ذرا دیر نہیں لگاتے ۔ یہ ایک مکروہ وناپسندیدہ رویہ ہے کہ لین دین یا کسی معاشرتی اختلاف کے سبب خود یا اپنے بیٹے بیٹی کو طلاق پر مجبور کردیں۔ اگر خدانخواستہ طلاق تک نوبت آ بھی جائے، تو درست طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے، اکٹھی تین طلاق دینے والا طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)
 بہرصورت کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقعہ ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہدِ نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار)
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر )
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔
 بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور
پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔
 مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ دونوں کی طرف سے ایک ایک طلاق ہوگئی ہے،اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ یہ واقعہ 14 ستمبر کو پیش آیا ہے، لہذا ابھی عدت ( جو کہ تین حیض ہوتی ہے) جاری ہے، جس کے اندر اندر آپ دونوں اپنی اپنی بیوی سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر عدت ختم ہوگئی تو پھر دوبارہ ملنے کے لیے نکاح کرنا ضروری ہو گا۔ (صحیح بخاری:5130)
ہم آپ کو یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست رکھیں۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ