رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ ان کے چھوٹے یعنی عام لوگ جرم کرتے تو پکڑے جاتے اور سزا پاتے جبکہ با اثر لوگ جرم کرتے تو قانون بدل دیے جاتے اور محفوظ و مامون رہتے ۔
میرا ایمان ہے کہ دنیا کے سب سے سچا انسان ہمارے رسول تھے سو اب اس حدیث کی روشنی میں اپنے ملک کو دیکھ لیجیے ۔
بیسیوں ایسے واقعات ہیں کہ جن میں سیاست دان اور ان کی اولادیں ، عدالتوں کے جج اور ان کی اولادیں ، پھر پولیس اور دوسرے اداروں کے افسران کی طرف سے ظلم کیا گیا ۔۔۔۔مجھے بتائیں کس میں انصاف ہوا ؟
اگر کسی واقعے پر عوامی ردعمل ان کی توقع سے زیادہ آ گیا تو بھی ان کے پاس ایک ” قانونی حل ” موجود ہوتا ہے کہ یہ اندرون خانہ دباؤ ڈال کر مظلوم خاندان کو صلح ہر مجبور کر لیتے ہیں ۔۔۔اور وہ دباؤ اس ظلم سے زیادہ شرمناک ہوتا ہے ۔۔ مثلاً اگر کسی کا بچہ کسی ظالم کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے اور مظلوم خاندان کھڑا ہو جاتا اور جھکنے سے انکار کرتا ہے تو یہ ظالم اس مظلوم خاندان کی بیٹیاں اٹھا لیتے ہیں ۔۔۔ بظاہر چھوٹا سا جملہ تھا جو شاہزیب کی ماں نے بولا تھا ” کیا کروں ، میری بیٹیاں بھی تو ہیں ” لیکن یہ جملہ آپ کے پورے نظام انصاف کو ننگا کر گیا تھا ۔۔مصیبت مگر یہ ہے کہ ان کو ننگے ہونے پر بھی کوئی شرم و حیاء نہیں محسوس ہوتی ۔
اب کل سے بارکھان واقعے پر پورا پاکستان ، میڈیا احتجاج کناں ہے ، لیکن ہونا کچھ بھی نہیں ۔۔۔سردار اسی طرح سردار رہے گا ، وزیر اسی طرح وزیر ۔۔۔۔ قتل ہوتے آ رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ، سہاگنوں کے سہاگ لٹتے رہیں گے ، ماؤں کی کوکھ اجڑتی رہے گے اور باپوں کے کاندھے جنازوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے ۔
اس قتل کا سب سے المناک معاملہ یہ ہے کہ مظلوم خاندان کی وزیر اور سردار کی دہشت کے سبب کوئی مدد نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ بلوچستان کے لوگ خوف میں تھے اور کچھ مقامی قبائلی مسائل تھے کہ دشمنی کی بنیاد نہ پڑ جائے ۔۔ ایسے میں کسی نے خان محمد مری کو مکرم ابتسام الہی ظہیر صاحب کا کہا ۔۔۔اس نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے خاصی تکلیف محسوس کی اور اپنے تعلقات استعمال کیے کہ کسی طور مظلوم خاندان کو رہائی ملے ۔ حیرت یہ رہی کہ ہر ایک نے ہاتھ کھڑے کر دیے ۔ میڈیا جو آج ماحول کے دباؤ کے سبب چیخ چیخ کر گلے پھاڑ رہا ہے اس کا یہ عالم تھا کہ ایک بڑے چینل کے انتہائی انتہائی سینیر صحافی سے ابتسام الہی ظہیر صاحب نے رابطہ کیا اور اس پر خبر بنانے کا کہا تو وہ پوری کوشش اور ادارے کا حصہ ہونے کے باوجود یہ خبر تک نشر نہ کروا سکے ۔۔۔ ایک سابقہ آئی جی صاحب بلوچستان سے بات کی تو انہوں نے ایسی ہی بےبسی کا اظہار کیا ۔۔۔ یہ سب ایک ماہ سے چل رہا تھا ۔۔حتی کہ ابتسام الہٰی ظہیر صاحب نے جمعہ پڑھایا اور اس میں احتجاج کیا تو سردار خود لاہور آیا کہ ملاقات کرے ، گو یہ ملاقات نہ ہو پائی ۔۔۔ ابتسام صاحب سینٹر مشتاق صاحب کے علم میں یہ بات لائے تو اس مرد مجاہد نے سینٹ میں آواز اٹھائی ، پھر ایک مرکزی وزیر سے بات کی گئی ۔۔۔
لیکن افسوس صد افسوس ! حادثہ ہو گیا ۔
کیا یہ تکلیف دہ ترین بات نہیں ہے کہ پورا ایک ماہ اس قدر بلند آہنگ اور باحیثیت لوگ اس خاندان کی رہائی کی کوشش کرتے رہے لیکن سب بے بس رہے ۔؟
اور یہی اس سانحے کا سب سے المناک پہلو ہے کہ پورا مہینہ اس رہائی کے لیے کوشش ہوئی ۔۔۔اچانک حادثہ نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادر ابتسام الہٰی نے جب ان تمام پچھلے دنوں کے واقعات سنائے تو میرا دل بند ہو رہا تھا ۔۔۔کاش میں وہ سب لکھ سکتا اور وہ بڑے بڑے نام بیان کر سکتا کہ جو اس معاملے میں خس و خاشاک سے ہلکے ثابت ہوئے اور بے بس نکلے ۔۔۔
خان محمد مری سردار کا سابقہ گارڈ تھا ، بقول اس کے کسی غیر قانونی کام سے انکار کے سبب وہ اس ابتلاء میں آیا ۔۔۔۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ معاملہ یہ ہے کہ مقتولہ خاتون نے قرآن کریم ہاتھ میں اٹھا کر حالت قید سے ویڈیو بھجوائی کہ اسے رہا کیا جائے ، لیکن ریاست سوئی رہی ۔۔۔۔۔
پاکستان ایک مسلسل ظلم کا معاشرہ ہے اور رسول صادق علیہ السلام نے ایسے معاشروں کے تباہ ہونے کی خبر دی ہے ۔۔۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے رسول کوئی غلط بات کرتے تھے ؟
واللہ میرا ایمان ہے کہ دنیا کی چھے ارب آبادی تمام تر ایک بات پر جمع ہو جائے اور رسول کی بات اس کے برعکس ہو تو یہ اجتماعی دانش غلطی کر سکتی ہے ، ہمارے رسول غلطی نہیں کر سکتے ۔۔۔ سو پاکستان کے بچنے کی واحد صورت یہاں ظلم کا خاتمہ ہے لیکن افسوس جنہوں نے ختم کرنا تھا وہ خود ظلم کا حصہ ہیں ۔

 

ابوبکر قدوسی